جمعرات‬‮ ، 14 اگست‬‮ 2025 

شب معراج مصطفی ﷺ شب معراج عظیم ترین تاریخی واقعہ

datetime 16  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برصغیر پاک و ہند کے نامور محقق ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق
’’کسی شخص سے آگے بڑھنے کے لیے اس کی برابر کی سطح تک آنا ہوتا ہے۔ آں حضور ؐ کی ان پیغمبروں سے ملاقات ان کی خصوصیات کا اعلیٰ پیمانے پر حصول تھا۔ حضرت آدم ؑ کے پاس اپنی غلطی کے اعتراف کی جرات تھی، حضرت عیسیٰ ؑ کو دنیاوی اور مادی آلائشوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی، حضرت یوسف ؑ نے عظمت و پاکیزگی کی مثال قائم کی، حضرت ادریس ؑ کے بارے میں آں حضور ؐنے بتایا کہ وہ تحریر کے موجد تھے جس سے تمام انسانی تہذیب و ترقی ہوئی، حضرت ہارون ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ نے اہل ایمان کو ظالم فرعون کے ظلم و ستم سے بچایا، حضرت ابراہیم ؑ نے ہمیں توحید کا پاکیزہ ترین مفہوم سمجھایا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے کاموں کے مابین فرق قائم کیا۔ یہ ایک اچھے مومن کی بنیادی خصوصیات ہیں اور محمد ؐ نے ان تمام خصوصیات کو حاصل کیا، حتیٰ کہ آپؐ فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے‘‘۔
بعد ازاںآپ ؐ کو جنت کے نظاروں اور جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دوران سفر جب سدرۃ المنتہٰی کے مقام پر پہنچے تو جبریل امین ؑ نے آگے جانے سے معذرت چاہی۔ آخر کار سفر معراج کی وہ منزل مقصود بھی آپہنچی کہ جس کے لیے آپؐ کو فرش سے عرش پر بلایا گیا اور دیدار الہیٰ کی نعمت عظمیٰ آپ کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم میں ہے (جس ذات (اللہ) نے ترقی کا پیمانہ مقرر کیا اور پھر انسانیت کی اس کی طرف راہ نمائی کی) یعنی خدا نے تمام انسانیت کو صالح فطرت پر پیدا فرمایا اور انسانیت کی ترقی اور کام یابی کے لیے راہ ہدایت کی طرف اس کی راہ نمائی فرمائی۔
عظیم ترین تاریخی واقعہء معراج انسانی ارادہ، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رْخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی اایت ہی واقعہء اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بلکہ پوری سورۃ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔
واقعہء اسراء میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی سیر واضح کرتی ہے کہ آپ ؐ نبی القبلتین کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ورنہ آپؐ سے پہلے جس قدر انبیاء شام اور عرب میں گزرے ہیں، وہ ان دونوں میں سے کسی ایک قبلہ کے متولی ہو ا کرتے تھے۔
سیدنا ابراہیم ؑ کو آ نے دو بیٹے عطا کیے۔ حضرت اسحاق ؑ شام میں آباد ہوئے اور سیدنا اسماعیل ؑ نے عرب میں قیام فرمایا۔ آگے چل کر ان دو صاحب زادوں کی اولاد میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی تفریق پیدا ہوئی، جسے اللہ تعالیٰ نے آں حضور ؐکے ذریعے ختم کیا، اور آپ ؐ نے پھر سے ملت ابراہیمی کو نظری، عملی اور تاریخی اعتبار سے وحدت بخشی۔
اس سفر میں سابقہ انبیاء ؑ سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی امامت کے شرف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کے اور سابقہ پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ بلکہ باہمی فرق صرف زمانی و مکانی حالات، معروضیت اور عصری تقاضوں کا ہے، اسی لیے پہلے انبیاء قومی درجہ پر مبعوث ہوئے جب کہ آپؐ نے سیدنا ابراہیم ؑ کی عالم گیر دعوت کے غلبہ و اشاعت کی تکمیل فرمائی۔ حضرت موسیٰ ؑ کو طور سینا پر احکام عشرہ سے نوازا گیا اور آپؐ کو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قائم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ ہیں‘ انسانیت کو حکم دیا گیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیلا کے ساتھ دو گھنٹے


شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…