ویانا(این این آئی)آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے امریکا اور ایران کے درمیان عالمی جوہری معاہدے پر بلواسطہ مذاکرات کا پہلا دور کامیابی سے مکمل ہوگیا۔عالمی میڈیاکے مطابق ویانا میں یورپی یونین کے توسط سے امریکا اور ایران کے درمیان عالمی جوہری معاہدے میں واپسی سے متعلق ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کا
پہلا دور مکمل ہوگیا جس میں جوہری معاہدے کے دیگر فریقین نے بھی شرکت کی۔امریکا اور ایران سمیت یورپی یونین اور جوہری معاہدے کے دیگر فریقین نے مذاکرات کے پہلے دور کو تعمیری اور مثبت قرار دیا ہے جب کہ مذاکرات میں شامل تمام فریقین نے ایران پر عائد پابندیوں اور امریکا کی جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایک ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔اپنے الگ الگ بیانات میں امریکا اور ایران نے کہا کہ انہیں فوری طور پر کسی کامیابی کی توقع نہیں ہے تاہم ابتدائی بات چیت مثبت رہی اور مستقبل میں بھی دونوں ممالک مثبت انداز میں پیشرفت جاری رکھیں گے۔امریکا اور ایران کے درمیان 2018 سے جاری تنائوکی وجہ سے خطے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جس کے خاتمے کے لیے یورپی یونین نے بیڑہ اْٹھایا ہے اور ویانا میں دونوں ممالک کے ساتھ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے تمام رکن ممالک کو جمع کیا ہے۔واضح رہے کہ عالمی جوہری معاہدہ بارک اوباما دور میں 2015 میں کیا گیا تھا اور ٹرمپ 2018 میں اس سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ معاہدے کے دیگر فریقین میں روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں۔ایران کے نائب وزیر خارجہ نے اجلاس کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ یہ ممالک مشترکہ جامع منصوبے (جے سی پی او اے) کی بحالی کے طریقوں پر تبادلہ خیال
کریں گے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر مئی 2018 میں ترک کردیا تھا۔ویانا میں ایرانی وفد کی قیادت کرنے والے عباس آراغچی نے بتایا کہ ویانا میں مذاکرات تعمیری تھے، ہماری اگلی ملاقات جمعہ کو ہوگی۔انہوں نے ویانا مذاکرات کے آغاز سے کچھ ہی دیر قبل امریکا کی جانب سے ایران کو کی جانے والی پیش کش
کے حوالے سے کہا کہ ‘ہم یورینیم کی 20 فیصد افزودگی روکنے کے بدلے میں ایران کا (جنوبی کوریا میں منجمد) ایک ارب ڈالر کو جاری کرنے سے متعلق کسی بھی معاہدے کو مسترد کرتے ہیں۔روس کے نمائندے میہکائیل الیانوف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ یہ ملاقات کامیاب رہی۔انہوں نے کہا کہ جے سی پی او اے کی بحالی فوری طور پر نہیں ہوگی، اس میں کچھ وقت لگے گا لیکن کتنی دیر تک؟ کوئی نہیں جانتا۔