واشنگٹن (این ین آئی)ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کے خلاف نئی سخت پالیسی نے انقرہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ترکی نے مغرب کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائی لیکن امریکی فیصلہ ساز روایتی اتحادی ترکی کے ساتھ ’سٹریٹجک پارٹنرشپ‘ پر سوالات اٹھا رہے
ہیں۔وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوین اور یورپین کمیشن کے سربراہ ارسولا وان ڈیر لین کے کیبنٹ چیف بجورن سائبرٹ کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ’چین اور ترکی سمیت باہمی تشویش کے معاملات پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔چین کے ساتھ ترکی کو نتھی کرنے سے ترک صدر کی نئی بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی امید پر پانی پھر گیا ہے۔ امریکہ نے ترکی کی جانب سے روسی ایس 400 میزائل خریدنے پر پہلے ہی پابندیاں لگا دی تھیں اور اب لگ رہا ہے کہ امریکہ یونان کے معاملے پر یورپ کا ساتھ دے گا۔اقوام متحدہ میں امریکہ نے لیبیا سے ’فوری طور پر‘ روسی اور ترکی کی فوج کے انخلا کا کہا۔ یہ بات اقوام متحدہ کی طرف سے گذشتہ برس اکتوبر میں پیش کیے سیز فائر معاہدے کے تناظر میں کی گئی جس کے تحت ترکی نے 23 جنوری تک لیبیا سے اپنے فوجیوں کو نکالنا تھا۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے تبصرہ نگار سیموئل رمانی کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ ترکی کے حوالے سے ایک مستقل پالیسی بنانے کی کوشش میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ایک طرف امریکہ بحیرہ روم میں کشیدگی کم کرنا چاہتا ہے اور سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ فرانس اور یونان کی سائیڈ لے رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کو اس حوالے واضح پوزیشن لینی چاہیے۔