نیویارک (این این آئی)اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قائم مقام امریکی سفیر رچرڈ ملز نے کہا ہے کہ امریکا کے صدر جو بائیڈن کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی باہم متفقہ اور دو ریاستوں کے حل کی حمایت کرے گی، جس میں اسرائیل ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے ساتھ سلامتی
اور امن کے ساتھ قائم رہے گا۔ اس ضمن میں وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ صدر کا نظریہ ہے کہ دو ریاستی حل ہی تعطل کے شکار مختلف امور کو آگے بڑھانے کا واحد راستہ ہے۔رچرڈ ملز نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینی امداد کی بحالی اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بند کیے گئے سفارتی مشنز کو دوبارہ کھولنے کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اقوام متحدہ میں قائم امریکی سفیر رچرڈ ملز نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن فلسطینیوں کی مدد بحال کرنے اور ٹرمپ انتظامیہ کے دورمیں بند کیے گئے فلسطینی سفارتی مشن جلد کھولنا چاہتے ہیں۔امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ بائیڈن کی پالیسی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت پرمبنی ہے۔ موجودہ امریکی صدر اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ ریاستوں کے قیام کی حامی ہے۔ جہاں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی بھی اپنی ایک آزاد ریاست میں جی سکیں۔اْنہوں نے اشارہ کیا کہ واشنگٹن دوسرے ممالک سے بھی اسرائیل کے ساتھ
تعلقات معمول پر لانے کی تاکید کرتا رہے گا لیکن اس نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فلسطین امن کا کوئی متبادل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ دوسرے ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی تلقین کرے گی۔رچرڈ ملز نے کہا کہ ان مقاصد کو آگے بڑھانے
کے لیے بائیڈن انتظامیہ، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ امریکا کے قابل اعتماد تعلقات کو بحال کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اس میں فلسطینی قیادت اور عوام کے ساتھ امریکی تعلقات کی تجدید شامل ہوگی۔رچرڈ ملز نے مزید کہا کہ صدر بائیڈن واضح کرچکے ہیں کہ وہ امریکی امدادی
پروگراموں کی بحالی کا ارادہ رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مختلف نوعیت کے پروگرام فلسطینی عوام کو انسانی امداد میں مددگار ثابت ہوں گے اور سابقہ امریکی انتظامیہ کی وجہ سے ختم ہونے والے سفارتی تعلقات کو دوبارہ کھولنے کے لیے اقدامات کریں گے۔خیال رہے کہ امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا ‘غیر منقسم دارالحکومت’ رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔فلسطینیوں
نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا تھا جو پورے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت نہیں دکھائے کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں، یہودیوں اور عسائیوں کے مقدس مقامات موجود ہیں۔تاہم امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت
رہے گا۔بعد ازاں 15 اگست 2020 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مابین امن معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔اس سے قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جاری بیان کے مطابق فلسطینی مہاجرین
کے لیے اقوامِ متحدہ کے پروگرام کو فراہم کی جانے والی تمام تر امداد روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔امریکا نے فلسطینی مہاجرین کی امداد کرنے والی یونائیٹڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کوانتہائی ناقص قرار دیا تھا۔دسمبر 2018 میں ، سابق امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے
ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کرنے کا الزام عائد کرکے واشنگٹن میں فلسطینی مشن بند کردیئے تھے۔واشنگٹن نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی”اونروا” کی 70 سال سے جاری امداد بھی بند کردی تھی۔ٹرمپ کی طرف سے سنہ 2017 کے
آخر میں امریکی سفارتخانے کی مشرقی یروشلم منتقل کرنے کے اعلان کے بعد ٹرمپ انتظامیہ اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے بعد سابق امریکی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کے خلاف اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی بیس لاکھ ڈالر کی امداد بھی روک دی تھی۔