انقرہ (این این آئی ) ترکی میں حکم راں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے بعض رہ نماں نے اس امر کی تردید کی ہے کہ جیلوں میں خواتین کو برہنہ کر کے ان سے تفتیش انجام دی گئی۔ تاہم اس معاملے کے سبب ترک حکام کو وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق گزرے دنوں کے دوران ترکی میں سابقہ خواتین قیدیوں کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا
پر خوف ناک انکشافات پر مبنی وڈیوز پوسٹ کیں۔ ان وڈیوز میں مذکورہ خواتین نے تصدیق کی ہے کہ حراست کے دوران تفتیش میں انہیں ذلت آمیز طریقوں کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین نے صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمراں جماعت پر کڑی تنقید بھی کی۔خاتون وکیل بتول البائے کے مطابق وہ ان درجنوں قیدیوں میں شامل تھیں جن کو اس ذلت آمیز تفتیش کا نشانہ بننا پڑا۔بتول نے انکشاف کیا کہ اسے اپنے والد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں بتول کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسے برہنہ کر کے حکم دیا گیا کہ وہ تین بار اٹھک بیٹھک کرے۔بتول کے مطابق وہ جیلوں کے اندر اس نوعیت کی خلاف ورزیوں کے وجود کا انکار کرنے والے ہر سیاست دان اور حکمراں جماعت کے رہ نما کو چیلنج کرتی ہے۔ بتول کا کہناتھا کہ اگر 2 نومبر 2017 کو جیل کے اندر لگے سیکورٹی کیمروں کی جانچ کی جائے تو آنکھ رکھنے والا ہر شخص دیکھ لے گا کہ مجھے مذکورہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔اسی طرح انسانی حقوق کی خواتین کارکنان نتالی افازیان، زکیہ اتاچ، ہاجر کوچ اور خاتون صحافی نور انار کلینچ نے بھی وڈیو کلپوں میں اس نوعیت کی شرم ناک حرکتوں کا نشانہ بنائے جانے کے بارے میں گفتگو کی۔دوسری جانب ہنگامی حالت سے متعلق آرڈیننس کے تحت کام سے علاحدہ کر دی جانے والی خاتون جج سفیم نرجیز کے مطابق اس نوعیت کی تفتیش صرف مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ عرصے سے
بالخصوص 2016 میں انقلاب کی کوشش کے دعوے کے بعد سے یہ حربے عادت بن چکے ہیں۔واضح رہے کہ جسٹس اینڈ ڈیولمپنٹ پارٹی کے پارلیمانی بلاک کی نائب لیڈر اوزلام زنجین جیلوں میں خواتین کو برہنہ کر کے تفتیش کیے جانے کی تردید کر
چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جیلوں میں بے لباس تفتیش کا یقین نہیں کرتی ہوں۔ اوزلام کے مطابق ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کے رکن پارلیمنٹ عمر فاروق اولو ، برہنہ تفتیش کے واقعات کا انکشاف کر کے پارلیمنٹ کو دہشت زدہ کرنا چاہتے ہیں۔