پیرس (این این آئی)عرب ممالک کی حکومتیں اور عوام فرانس مسلم آبادی کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فرانس میں حال ہی میں حکومت نے ستر سے زائد مساجد کی کڑی نگرانی یا انہیں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں ایک ٹیچر کا بہیمانہ قتل اور پھر نیس شہر کے ایک گرجا گھر میں تین افراد کی ہلاکت کے بعد
فرانسیسی حکومت کے پے در پے سکیورٹی اقدامات سامنے آئے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ان واقعات کے دوران یہ بھی کہا کہ مذہب اسلام کو بحرانی دور کا سامنا ہے۔اس بیان پر انہیں کئی مسلم ممالک کے سربراہان کے سخت جملوں کا سامنا کرنا۔ اس کے علاوہ کئی مسلمان ملکوں میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ چند روز قبل فرانسیسی وزیر داخلہ نے 80 مساجد کی کڑی نگرانی اور چند ایک کو بند کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ فرانس میں براعظم یورپ کی سب سے بڑی مسلم آبادی ہے جو قریب چھ ملین ہے۔شیخ محمد ابْو زید لبنان کی سنی عدالت کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ دارالحکومت بیروت کی نواحی بستی صیدا کی سب سے بڑی مسجد کے امام بھی ہیں۔ انہوں نے موجودہ صورت حال میں بہتری لانے کے لیے پیرس حکومت کے ساتھ مکالمت کو اہم قرار دیا ہے۔ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کی ان حالات میں ریاستی طاقت اور اختیار کے استعمال سے مجموعی حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ عرب دنیا کے علاوہ دیگر مسلمان ممالک میں بھی ابْو زید کی شہرت مکالمتی اور مذاکرتی عمل کی ترویج کی وجہ سے ہے۔ وہ ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور خطابات میں ہمیشہ پرامن اسلام اور غیر مسلم یا اقلیتی برادری کے ساتھ امن و سلامتی کو فروغ دینے کے لیے مذاکرات کو انتہائی اہم قرار
دیا ہے۔ لبنانی اسکالر مشہور اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔عالم دین ابو زید نے فرانسیسی حکومت اور مسلمانوں کو سہ رخی مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ اس میں پہلے مقام پر انہوں نے پیرس حکومت کا کسی بغض کے بغیر یعنی کھلے انداز میں مکالمت میں شریک ہونا تجویز کیا ہے تا کہ مسلمان حکومتی دباؤ کو محسوس نہ کریں۔دوسرا مشورہ انہوں نے یہ دیا کہ تمام مساجد کے
آئمہ کی مناسب تربیت ازحد ضروری ہے۔ لبنانی اسکالر نے تیسرا مشورہ یہ دیا کہ مساجد کی بندش مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے نیا تنازع جنم لے سکتا ہے۔ اس تناظر میں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مساجد بند کرنے کے بعد لوگ نماز اور علماء کی تقاریر سننا نہیں چھوڑیں گے بلکہ اپنا عمل خفیہ انداز میں جاری رکھیں گے ۔ یہ امر اہم ہے کہ ابو زید سن دو ہزار پانچ میں پیغمبر اسلام کے خاکوں
کی اشاعت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے تناظر میں ڈنمارک کا دورہ کرنے والے اولین امام تھے۔معروف مسلمان عالم دین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی تجاویز یا مشورے پڑھ کر سخت عقیدے کے مسلمان ان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنائیں گے اور انہیں کمزور ایمان کا حامل بھی قرار دیں گے۔ ابو زید کے مطابق انتہا پسند مسلمان یہ بھی کہیں گے کہ انہوں نے فرانسیسی حکومت کی اطاعت
اختیار کر لی ہے۔پینتالیس سالہ امام نے فرانسیسی حکومت کے 2600 مساجد یا نماز کے مقامات کے معائنے کو درست سمت میں ایک مناسب قدم بھی خیال کیا ہے۔ انہوں نے فرانسیسی مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ملک میں رہتے ہیں ناںکہ سیاح ہیں، اس لیے اس ملک کا دفاع کریں جس نے انہیں شہریت اور زندگی بسر کرنے کا مقام اور موقع دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں دانستہ
فرانسیسی مسلمانوں کو وہاں کا شہری قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ترک یا ہندوستانی یا پاکستانی یا لبنانی طور طریقے اپنانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس ملک کے مطابق زندگی گزاریں جس کے وہ شہری ہیں۔لبنانی اسکالر نے صدر ماکروں کی اس تجویز کی حمایت کی ہے، جس میں انہوں نے فرانسیسی مسلمانوں کی کونسل کو عبادت کا ایک چارٹر مرتب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ابو زید
کے مطابق کونسل اس چارٹر کو ملکی وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر حتمی شکل دے۔ کئی مسلم ممالک کو عبادت کا چارٹر مرتب کرنے کی تجویز پر اعتراض ہو سکتے ہیں لیکن ابو زید نے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا ہے۔ابو زید نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک غریب مسلم خاندان سے ہے۔ ان کے والد ترکھان تھے لیکن ان کی ہدایات
اور ترغیب پر ان سمیت، ان کی تینوں بہنوں نے تعلیم پر مکمل توجہ دی اور علم حاصل کیا۔ اب اس محنت کی بدولت وہ صیدا کی سب سے بڑی سنی مسجد کے امام ہیں۔ انہوں نے بیروت یونیورسٹی سے اسلامی شریعت میں ڈگری حاصل کی اور پھر تقابلِ ادیان پر اعلیٰ ڈگری سینٹ جوزف یونیورسٹی سے حاصل کی-