الجزائر(این این آئی )الجیریا کے دارلحکومت الجزائر میں 43منزلہ مینار والی افریقہ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کردیاگیا،الجیریا کے دارالحکومت میں واقع جامع الجزائر میں ایک وقت میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد نماز ادا کر سکیں گے جبکہ اس پر 1.5 ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کی نگرانی کرنے والی
چینی کمپنی نے بتایاکہ یہ افریقہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا افتتاح ملک کے وزیر اعظم عبدالعزیز جراد نے کیا ۔اس مسجد کی تعمیر سنہ 2012 میں صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کے دور میں شروع ہوئی تھی اور ڈیڑھ سال قبل اسے مکمل کر لیا گیا تھا۔افتتاح کے بعد وزیر اعظم عبدالعزیز جراد نے یہاں نماز ادا کی اور اس وقت ان کے ہمراہ دیگر سیاسی و مذہبی رہنما اور مسلم ممالک کے نمائندے موجود تھے۔مسجد کی تعمیر جدید طرز پر کی گئی ہے اور یہ تقریبا 70 ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ چینی تعمیراتی کمپنی کے مطابق یہ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کی مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بڑی مسجد ہے۔یہاں ایک وقت میں تقریبا ایک لاکھ 20 ہزار افراد نماز ادا کر سکیں گے۔ تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دنوں میں ابھی اس کا صرف ایک بڑا ہال کھولا گیا ہے۔وسیع مقبولیت کے باوجود اس مسجد کی تعمیر متنازع ہوئی کیونکہ اس کے بننے میں سات سال کا عرصہ لگا اور قومی خزانہ سے 1.5 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔جامع الجزائر کی منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا مینار 267 میٹر بلند ہے اور اسے دارالحکومت کے چاروں اطراف سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مینار کی 43 منزلیں ہیں اور اس کی ہر منزل تک رسائی لفٹ کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔الجزائر مسجد کے اندرونی حصے کو نیلے رنگ کے سنگ مرمر اور خاص لکڑی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ دیواروں پر عربی میں خطاطی کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔اس کے قالین پر پھولوں کا خاص ڈیزائن ملک کے ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔اس میں کل 12 عمارتیں ہیں جن میں 10 لاکھ کتابوں والی ایک لائبریری، لیکچر ہال، اسلامی تاریخ اور آرٹ کا میوزیم، ریسرچ سینٹر، باغ اور پانی کے فوارے شامل ہیں۔جامع الجزائر میں پانچ امام اور پانچ موذن تعینات کیے گئے ہیں جو یہاں خدمات سرانجام دیں گے۔علما کونسل کے ایک رکن نے بتایا کہ اس جامع مسجد کی مدد سے انتہا پسندی کی سوچ کا مقابلہ کیا جائے گا۔الجیریا میں صوفی لائبریری کے پبلشنگ ڈائریکٹر حماد الطیبی کا کہنا تھا کہ جامع الجزائر کو ماضی میں ملک کے فرانسیسی نوآبادیاتی نظام اور عیسائیت نافذ کرنے کے منصوبے کے خلاف ایک علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔