کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات میں چاہے ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا جو بائیڈن لیکن ایک عرصے سے مندی کا شکار ڈالر کی صورتحال بہتر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق مارچ میں ڈالر بلندی کی سطح پر پہنچ گیا تھا لیکن اس وقت وہ مذکورہ
اعشاریے سے 9 پوائنٹس نیچے ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ 2017 میں اپنی بدترین سطح تک دوبارہ پہنچ جائے گا جس کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ آنے والے کئی سالوں تک ڈالر کی سطح نیچے ہی رہے گی۔ماہرین اور سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کی فتح سے کرنسی مزید کمزور ہو گی کیونکہ وہ ممکنہ طور پر ایسی پالیسیاں متعار ف کرائیں گے جس سے ڈالر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اسی طرح کچھ کا ماننا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مزید 4سال برسر اقتدار رہتے ہیں تو وہ ڈالر کے لیے صحیح اور واضح سمت کا تعین نہیں کر سکیں گے، البتہ ان کی چین مخالف حکمت عملی سے ڈالر کی عالمی منڈی میں مضبوطی اور بہتری کا امکان موجود ہے۔گزشتہ ماہ برطانوی نیوز ایجنسی کے پول کے مطابق ماہرین نے کہا تھا کہ ایک سال میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کے 1.21ڈالر اوپر جانے کا امکان ہے جو موجودہ مارکیٹ کی سطح سے 4فیصد زیادہ ہے۔یہ چند محرکات ہیں جو طویل دورانیے میں ڈالر کی قدروقیمت پر اثرانداز ہوں گے۔ایک ماہر نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ اثر کورونا کی وجہ سے کم کی گئی شرح سود سے پڑا، یہ ڈالر کے لیے انتہائی منفی ہے اور اس کی اصل قدر سے کہیں دور ہے۔