نیویارک (این این آئی)اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال (یونیسیف)نے کہاہے کہ بچوں کی شادی کی روایت کا خاتمہ معاشروں سے غربت کو رفتہ رفتہ دور کر سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ اور با اختیار لڑکیاں صحت مند نئی نسل کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔ تاہم کورونا کی وبا غربت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کے شکار والدین ‘چائلڈ میرج پر مجبور ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایاکہ دنیا بھر میں ہر سال 18 سال سے کم عمر کی 12 ملین لڑکیوں کو ازدواجی بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا کہ جب تک کورونا وائرس کے معاشی اور معاشرتی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی کارروائیاں نہیں کی جاتیں تب تک اگلی دہائی میں مزید 13 ملین بچوں کی شادیوں کو نہیں روکا جا سکتا۔کورونا کے پھیلا ئوکے بعد سے اب تک بچوں کی جبری شادیوں سے کئی ہزار خاندان متاثر ہو چکے ہیں۔ گرچہ اس بارے میں حتمی ڈیٹا ابھی اکٹھا نہیں کیا جا سکا ہے۔بہبود اطفال کی تنظیم سیو دا چلڈرن نے خبردار کیا کہ لڑکیوں کے خلاف تشدد اور جبری شادیوں کے خطرات، خاص طور سے نابالغوں میں، وائرس سے کہیں بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ادھر یونیسیف نے انڈونیشیا میں نابالغوں کی شادی سے متعلق ایک اہم مسئلے پر زور دیا ، اس عالمی ادارے کے مطابق چائلڈ میرج کی شرح کے اعتبار سے انڈونیشیا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی جبری شادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا میں گزشتہ برس لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی قانونی عمر 16 سال سے بڑھا کر 19 سال کر دی گئی تھی۔ لیکن اس معاشرے کے قوانین میں بہت سے جھول ہیں۔ مثلا مقامی مذہبی عدالتیں کم عمری کی شادی کی اجازت دے سکتی ہیں۔