ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مودی سرکار کے بڑھتے ہوئے مظالم، کشمیری مسلمانوں کو اہم عہدوں سے ہٹا دیا

datetime 31  جولائی  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سرینگر(این این آئی)مقبوضہ کشمیر میںآر ایس ایس کی حمایت یافتہ نریندر مودی کی زیرقیادت فسطائی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعدمقبوضہ علاقے میں اپنے ہندوتوا ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کشمیری مسلمانوں کو اہم عہدوں سے ہٹاکر انکی جگہ ہندوئوں کوتعینات کر دیا ہے ۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یہ پیشرفت 2 اپریل کو اس وقت منظرعام پر آئی جب وادی کشمیر میں سوشل میڈیا پر

وائرل ہونے والی نام نہاد کشمیر انتظامیہ کے ایک اجلاس کی ایک تصویرسامنے آئی،جس کا حوالہ بھارتی نیوز پورٹل Sroll.inکی ایک رپورٹ میں دیاگیا تھا۔ تصویر میں لیفٹینٹ گورنر جی سی مرمو کو بیوکریٹس کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دکھایاگیاتھا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اجلاس میں صرف ایک کشمیری مسلمان فاروق احمد لون شامل تھے جن کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔اسلام کشمیر کا سب سے بڑا مذہب ہے اور مقبوضہ علاقے کی 97فیصد آبادی مسلمان ہے ۔رپورٹ میںوادی کشمیر کے ایک فیس بک یوزر کے حوالے سے کہاگیا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے سے متعلق فیصلہ سازی کیلئے منعقد کئے گئے اجلاس میں صرف ایک کشمیری مسلمان کو شامل کیاگیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تصویر میںگزشتہ سال5 اگست کو جب بھارت نے جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر کے فوجی محاصرہ کر لیا تھاکے بعد سے کشمیریوں کو درپیش اضطراب کی عکاسی کی گئی ہے ۔ بھارتی پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 35اے کو بھی منسوخ کردیا ہے جس میں مقبوضہ علاقے کی حکومت کو اراضی کی ملکیت اور سرکاری ملازمتوں کے حق سمیت جموںوکشمیر کے مستقل رہائشیوں کے حقوق کے تحفظ کا حق دیا گیا تھا ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد بنیادی طور پر وادی کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور اکشمیری عوام کو انکے معاشی اور سیاسی حقوق سے محروم کرنا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد قانون ساز اسمبلی جسے تحلیل کردیا گیا ہے میں مسلمان قانون سازوں کو اکثریت حاصل تھی ۔ 5 اگست کے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے بعد وادی کشمیر کے باشندوںکو دوبارہ “ڈوگرہ راج ” نافذ ہونے کا خدشہ ہے جو کہ 1947سے پہلے مقبوضہ علاقے میں قائم تھا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ یہ صرف تصویر نہیں ہے جس نے ان خدشات کو بڑھادیا ہے۔ رپورٹ میں سابق نام نہاد

وزیر غلام حسن میر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سول بیوروکریسی ، پولیس اور عدلیہ کہیںبھی کشمیری مسلمان موجود نہیں ہیں۔انہیں ہٹادیاگیا ہے اور سسٹم مکمل طورپر عدم توازن کا شکار ہے ۔ رپورٹ کے مطابق داخلہ ، ، خزانہ ، صحت ، ماحولیات جیسے اہم محکموں کی سربراہی مقبوضہ کشمیر کے باہر سے لائے گئے افسروںکے پاس ہے اور مقبوضہ وادی کی صرف ایک اہم پوسٹ ایک کشمیری مسلمان کے پاس ہے جو کہ

پرنسپل سیکریٹری سکول ایجوکیشن اصغر حسن ہیں۔ ادھر جموں و کشمیر پولیس فورس کی سربراہی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دل باغ سنگھ کررہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دلی سے تعلق رکھنے والے مکیش سنگھ جموں ڈویژن میں پولیس کے سربراہ ہیں اور بہار سے وجئے کمار انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کشمیر کے پانچ ڈپٹی انسپکٹر جنرلز میں سے بھی کسی کا تعلق کشمیر سے نہیں ہے۔ وادی کشمیر کے 13 پولیس ڈسٹرکٹس میں سے صرف دو کی سربراہی کشمیری سپرنٹنڈنٹس کے پاس ہے۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں بھی کشمیرسے تعلق رکھنے والے ججز اقلیت میںہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ11 ججوں میں سے صرف صرف 2 کشمیری مسلمان اور دو کشمیری پنڈت ہیں۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…