تہران(آن لائن )عراق میں امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کے موقع پر بھگدڑ مچنے سے کم از کم 35 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھگدڑ میں 48 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ بھگدڑ منگل کو قاسم سلیمانی کے آبائی شہر کرمان میں ان کے جنازے میں مچی جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے۔
تاحال واضح نہیں کہ بھگدڑ کیوں اور کیسے مچی تاہم اس واقعے کے بعد قاسم سلیمانی کی تدفین کا عمل بھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔ایرانی ایمرجنسی سروسز کے سربراہ پیرحسین قلیوند کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے بھگدڑ میں متعدد افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ کرمان پولیس کے ڈائریکٹر جنرل حامد شمس الدین نے ان افواہوں کو مسترد کیا ہے کہ جنازے کے جلوس میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’قاسم سلیمانی کے جنازے میں دہشت گردی کی کارروائی کی افواہ نظام کے دشمنوں کی سازش ہے۔‘دارالحکومت تہران میں پیر کو ان کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے بعد ایران کے سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق منگل کو کرمان میں بھی سیاہ لباس پہنے ہوئے بڑی تعداد میں عوام انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق کرمان میں قاسم سلیمانی کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک تھے۔جنازے کے جلوس میں شریک افراد نے ایرانی پرچم اور قاسم سلیمانی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور وہ ’مرگ بر امریکہ‘ یا امریکہ مردہ باد اور ٹرمپ مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔قاسم سلیمانی کو ایران میں ایک قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا اور انھیں ملک میں آیت اللہ خامنہ ای کے بعد سب سے طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا۔
کرمان میں ان کے جنازے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ ایران قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ ’ان مقامات کو جلا کر لے گا جو انھیں (امریکیوں کو) بہت پسند ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے دشمن سے کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لیں گے۔ اگر انھوں نے اب کوئی قدم اٹھایا تو ہم ان کے پسندیدہ مقامات کو جلا دیں گے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ مقامات کہاں ہیں۔‘
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا جبکہ ایران نے کہا ہے کہ وہ اپنے جرنیل کی ہلاکت کا بدلہ لے گا۔ ایران نے اس حملے کے بعد 2015 کے عالمی جوہری معاہدے سے بھی دستبردار ہو کر یورینیئم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا ہے۔امریکہ نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو رواں ہفتے نیویارک میں اقوامِ متحدہ میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا جاری کرنے سے
بھی انکار کیا ہے۔ بظاہر یہ قدم اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت غیرملکی حکام کو اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر تک رسائی کی ضمانت دی جاتی ہے۔تہران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جواد ظریف نے کہا امریکہ نے قاسم سلیمانی کو قتل کر کے ’بہت بڑا جوا کھیلا اور اس کا حساب کتاب غلط ہو گیا ہے۔‘ایرانی پارلیمان نے بھی ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت امریکی فوج اور محکمہ دفاع کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔