لندن( آن لائن )برطانیہ میں ایک مرتبہ پھر بورس جانسن کے اقتدار میں آنے کے بعد برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو انتہاپسند سفیدفام تنظیموں کی جانب سے برطانیہ چھوڑنے کے لیے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں جبکہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی خاندانوں نے ملک کو چھوڑنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں .بورس جانسن کی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے انتخابات میں
کامیابی کے بعد نسل پرست لوگوں کی جانب سے طعنہ بازی میں اضافہ ہوگیا ہے اور دائیں بازو کے کارکنان جو اپنا تعلق جانسن کی جماعت سے بتاتے ہیں، اب مسلمانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ برطانیہ کو چھوڑ دیں یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں. ایک مقامی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ برطانیہ چھوڑنے کی تیاری کرنے والوں میں منظور علی نامی ایک سماجی کارکن بھی ہیں جو مانچسٹر میں غریب لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے منظور علی کا کہنا ہے کہ میں اپنی حفاظت کی وجہ سے خوف زدہ ہوں، میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بھی پریشان ہوں.برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پر مسلمانوں کے خلاف متنازع بیانات پر ان پر ہمیشہ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہیبورس جانسن نے کہا تھا کہ اسلام سے خوفزدہ ہونا لوگوں کے لیے فطری ہے ایک مرتبہ اپنے کالم میں انہوں نے باحجاب مسلمان خواتین کو ڈاک خانہ کہہ ڈالا جبکہ ایک اور مضمون میں انہوں نے اسلام کی تضحیک کی تھی.منظور علی کہتے ہیں کہ میرے اہل خانہ کی دعائیں ساتھ ہیں کہ ہم کسی ایسی جگہ منتقل ہوجائیں جو ہمارے لیے محفوظ ہوانہوں نے بتایا کہ ان کا خیرات جمع کرنے اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا سلسلہ گزشتہ 10 سال سے جاری ہے، چندہ جمع کرکے ہر طرح کے لوگوں کی مدد کی جس میں سابقہ فوجی
سفید فارم انگریز لوگ بھی شامل ہیں. ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ ان کا گھر ہے، اور اب وہ نہیں جانتے کہ انہیں کہاں جانا ہے لیکن ان کا خاندان اس بات پر رضامند ہے کہ انہیں ایسی جگہ منتقل ہونا چاہیے جہاں ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے.مقامی ذرائع ابلاغ نے 38 سالہ ایڈن نامی خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی حفاظت سے متعلق خوفزدہ ہیںان پر کچھ نسل پرستوں کی
جانب سے تشدد کیا گیا تھا، ان کا اسکارف بھی اتار دیا گیا تھا جبکہ انہیں دہشت گرد تک کہہ دیا گیا تھا.انہیں خدشہ ہے کہ یہ انتخابی نتائج نسل پرستوں اور اسلام مخالفین کی حوصلہ افزائی کرے گاوہ کہتی ہیں کہ اب وہ برطانیہ کے باہر روزگار کی تلاش کے لیے متحرک ہوگئی ہیں یہ ممالک شاید ترکی یا پاکستان ہوسکتے ہیں تاہم وہ خوف زدہ ہیںانہوں نے کہا کہ ان کی بھتیجی جو ایک ڈاکٹر ہیں کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کے
اب برطانیہ ہمارے لیے ٹھیک ملک ہے یا نہیں.مسلم کونسل برطانیہ (ایم سی بی) کے ترجمان مقداد ورسی اس حوالے سے متفق دکھائی نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے غیر متوقع نہیں کہ کچھ مسلمان یہاں سے جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے کئی مسلمانوں کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی ہے. انہوں نے کہا ہمیں ایسا کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے، اپنے حقوق اور مساوات کی لڑائی کے لیے کھڑے ہونا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں نسل پرستی کے خلاف پہلے سے زیادہ اظہار یکجہتی کی ضرورت ہے.