تل ابیض(این این آئی) شام میں ترک فوج کی کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن میں ایک خاتون سیاست دان سمیت 9 شہریوں ہلاک ہوگئے اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔عالمی میڈیا کے مطابق شام کے کرد علیحدگی پسندوں کے زیر تسلط سرحدی علاقوں تل ابیض اور راس العین میں ترک فوج کے کردوں کیخلاف ’چشمہ امن آپریشن‘ کے چوتھا روز سرحد کے دونوں اطراف 30 سے زائد شہریوں کی ہلاکت ہوئیں۔
دوسری جانب ترک صدر طیب اردگان نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے ٹیلی فونک گفتگو میں ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کرد دہشت گرد تنظیم وائے پی جے کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ علیحدگی پسند جماعتوں کے خاتمے سے ہی شامی مہاجرین کی اپنی گھروں کو رضاکارانہ اور محفوظ واپسی ممکن ہے۔ادھر شامی فوج کی حمایت یافتہ عسکری گروپ کی ایک مرکزی شاہراہ پر کارروائی کی زد میں آکر ایک کرد سیاست دان اور سماجی کارکن ہروین خلف ہلاک ہوگئیں جبکہ دیگر 8 افراد بھی ان حملوں کا شکار بن گئے تاہم ترک حمایت یافتہ گروپ شامی نیشنل آرمی نے ان ہلاکتوں کی تردید کی ہے۔دریں اثناء شام میں علیحدگی پسند کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر ہالینڈ اور جرمنی کے بعد اب فرانس نے بھی ترکی کو اسلحے کی فروخت کو معطل کر دیا۔عالمی میڈیا کے مطابق شام کے سرحدی علاقوں میں مسلح کرد علیحدگی پسند جماعت کے خلاف ترک فوج کا آپریشن جاری ہے تاہم عالمی سطح پر اس کارروائی کے خلاف ردعمل بھی سامنا آرہا ہے۔ فوجی کارروائی کے آغاز پر ہی ہالینڈ اور جرمنی ترکی کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے معطل کردیئے تھے اور اب فرانس نے بھی اسلحے کی فروخت بند کردی۔فرانسیسی وزارت دفاع اور خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فرانس نے ترکی کو اسلحے کی خرید و فروخت سے متعلق کیے گئے تمام معاہدوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
قبل ازیں ہالینڈ نے ترکی میں فوجی ساز وسامان کی برآمد کے لیے تمام درخواستوں کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے یورپی یونین کے دیگر ممبر ممالک سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد جرمنی نے بھی اسلحے کی فراہمی معطل کردی تھی۔ہالینڈ، جرمنی اور فرانس کی جانب سے ترکی کو شام میں کردوں کیخلاف فوجی آپریشن پر متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ شمالی شام میں ترک فوج کی کارروائی سے یورپی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے جس پر ترک صدر کا کہنا تھا کہ اگر فوجی کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ ہزاروں شامی پناہ گزینوں کو یورپی ممالک بھیج دیں گے۔