پیرس (این این آئی)فاطمیون بریگیڈ جس کو ایرانی پاسداران انقلاب نے 2013 میں بنایا تھا، یہ بریگیڈ بشار الاسد کی طرف سے لڑنے کے واسطے شیعہ مہاجرین کو بھرتی کر رہا ہے۔ مال کے بدلے ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک ایسی جنگ میں آخری سانس تک لڑتی ہے جو ان کی جنگ ہی نہیں۔
فرانسیسی خبار کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری میں امریکا نے اس بریگیڈ کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جب کہ واشنگٹن اب پاسداران کو بھی ایک دہشت گرد تنظیم کا درجہ دے چکا ہے۔سال 2015 اور 2016 میں جب شام کی جنگ عروج پر تھی، زرد پرچم کے حامل ان جنگجوؤں کی تعداد 10 ہزار کے قریب تھی۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والا 23 سالہ حسین غیر قانونی طریقے سے ایران پہنچا تھا۔ ایرانی حکام ہر جگہ رضاکاروں کی تلاش میں چھاپے مار رہے تھے۔ وہ فیکٹریوں اور یہاں تک کہ جیل کے قیدیوں میں بھی افغانوں کو ڈھونڈ رہے تھے! ان لوگوں سے وعدے کیے گئے کہ شام جانے کی صورت میں انہیں آزادی مل جائے گی۔ حسین کے مطابق ایک روز پولیس نے اسے روک کر کہا کہ اگر وہ شام جا کر لڑائی میں حصہ لے تو اسے مال دیا جائے گا اور ساتھ ہی شناختی دستاویزات بھی جاری کر دی جائیں گی۔ تاہم حسین نے یہ سوچ کر اس پیش کش کو مسترد کر دیا کہ اگر وہ شام میں مارا گیا تو افغانستان میں اس کے والدین اور بہنوں کا کیا ہو گا۔ ایرانی حکام نے حسین کی بے دخلی کا فیصلہ کیا اور وہ ایک بار پھر وہاں سے فرار ہو گیا۔بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی شام چلے گئے۔ ایران نے شام میں بشار الاسد کی آمریت کو بچانے کے واسطے مذہبی کارڈ استعمال کیا۔