انقرہ (این این آئی) ترکی میں گذشتہ 17 برس کا عرصہ رجب طیب ایردوآن اور ان کی جماعت کے اقتدار کا دور کہلاتا ہے۔ طیب ایردوآن نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لیے جو پالیسی اپنائی اس پر عالمی سطح پر سخت تنقید بھی کی جاتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ترک عوام کی تقدیر بدلنے اور ترکی کی “عظمت رفتہ” کی بحالی کا وعدہ کیا۔ انہوں نے عوام اور اپنے ووٹروں کے سامنے ترکی کی معاشی ترقی کے وعدے کیے۔
اگرچہ ان کی حکومت میں ترکی نے معاشی میدان میں قابل ذکر ترقی کی مگر تصویر کا دوسرا رخ انتہائی بھیانک اور خوف ناک ہے۔ گزشتہ برس طیب ایردوآن نے ملک میں جاری پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرتے ہوئے خود صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور ریاستی مشینری کے استعمال سے صدر منتخب ہوگئے مگر وہ ترکی کی معاشی رفتار کو جاری نہیں رکھ سکے۔ 2018ء کا آخری عشرہ ترکی کی معیشت کے حوالے سے مایوس کن ثابت ہوا۔امریکی اخبار کے مطابق صدر طیب ایردوآن کی پالیسیوں سے عوام نالاں ہیں اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔امریکی اخبار کے مطابق 2016ء کی فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد صدر ایردوآن کو اپنے اقتدار کو مزید مستحکم کرنے کا موقع ملا مگر انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ریاستی اداروں میں گہرائی تک اپنا اثرو نفوذ قائم کرنے کی پالیسی اپنائی اور محض شبے کی بنیاد پر مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور ان کے خلاف سخت انتقامی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے ترکی کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر کی مگر سب سے زیادہ نقصان ترکی کی معیشت کا ہوا۔ پچھلے مہینوں کے دوران ترک لیرہ کی قیمت میں غیر معمولی گراوٹ نے حکومت کو ایک نئی مشکل سے دوچار کر دیا۔رپورٹ کے مطابق ترکی کے دولت مند اور کاروباری لوگ یورپ اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو رہے ہیں۔ استنبول جس کا شمار دنیا کے ساتھ اہم تجارتی شہروں میں ہوتا ہے، سے کاروباری لوگ اجتماعی شکل میں ھجرت کرنے لگے ہیں۔