تہران(این این آئی)ایران میں عدلیہ نے دو خواتین سمیت چوبیس مظاہرین کو قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں مجرم ٹھہرا دیا ہے اور انھیں چھے ماہ سے چھے سال تک قید کی سزائیں سنا دیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہاکہ ان افراد سمیت پچاس سے زیادہ مظاہرین کو 2 اگست کو تہران میں ملک کی ابتر
معاشی صورت حال اور سرکاری حکام کی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاجی ریلی میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ایرانی حکام نے انسانی حقوق کے علمبردار ایک وکیل کو بھی گرفتار کیا تھا۔اس کو 28 اکتوبر کو ایک زیر حراست شخص کی ہلاکت کی اطلاع دینے کے الزام میں قصور وار قرار دے کر تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔اس متوفی شخص کو ایرانی حکام نے احتجاجی جلوس میں حصہ لینے پر گرفتار کیا تھا اور پھر دوران حراست اذیتیں دے کر جان سے مار دیا تھا۔ہیومن رائٹس واچ کے مشرقِ وسطیٰ میں ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کے عہدے دار دنیا کے سامنے اس تشہیر کا اعادہ تو کرتے رہتے ہیں کہ ملک میں مظاہروں کی عام آزادی ہے اور یہ حقیقی آزادی کی بھی مظہر ہے جبکہ وہ یہ نہیں بتاتے ہیں کہ یہی مظاہرین جیلوں میں کئی کئی سال تک صعوبتیں برداشت کرتے رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پْرامن مظاہرین کے خلاف مقدمات چلانے سے صرف ایرانیوں میں پائی جانے والی مایوسی اور عدم اطمینانی ہی کو تقویت ملے گی۔مظاہرین کے کیسوں سے باخبر تین ذرائع نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ پراسیکیوٹر زنے سزا پانے والے افراد پر اجتما ع ، قومی سلامتی کے اداروں سے ٹکراؤ اور مجاز اتھارٹی سے اجازت لیے بغیر مظاہرے میں حصہ لینے پر فرد جرم عاید کی تھی۔ان میں 19 سالہ لڑکی صبا سمیت دو ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کے خلاف ماضی میں مظاہرے کے بارے میں سوشل میڈیا پر مواد پوسٹ کرنے کی بنیاد پر فرد جرم عاید کی گئی ہے۔دو ذرائع نے ایچ آر ڈبلیو کو بتایا کہ پراسیکیوٹرز اور جیل حکام نے زیر حراست افراد کو ان کے وکلاء سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔اس کے بجائے ان پر یہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ قصور وار ہونے کا اقرار کر لیں۔ایرانی قانون کے مطابق قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیے گئے افراد کو تحقیقات کے دوران میں وکیل سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔