ویانا (مانیٹرنگ ڈیسک) گزشتہ سال کی طرح اس نئے سال کے آغاز میں دنیا میں آنے والے بچوں کا خوب چرچا رہا، ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق یورپی ملک آسٹریا میں نئے سال کے آغاز پر سب سے پہلے پیدا ہونے والی بچی مسلمان خاندان کی تھی، اس کی پیدائش کا سن کر سوشل میڈیا پر نسل پرستانہ مہم کا آغاز ہو گیا اس مہم نے تیزی سے شدت اختیار کی جس پر آسٹریا کے صدر کو درمیان میں آنا پڑا۔ ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ
سال کے آغاز میں پیدا ہونے والی یہ بچی مسلم جوڑے کے ہاں پیدا ہوئی اور اس کے ماں باپ نے اس کا نام آسل رکھا۔ جب آسٹریا میں سال نو کے آغاز پر سب سے پہلے بچی پیدا ہونے کی خبر آئی تو دوسرے ملکوں کی طرح اس بچی کو بھی خوش قسمت کہا گیا لیکن جیسے ہی یہاں کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس کے والدین مسلم ہیں تو اس پر اسلام مخالف انتہا پسندوں نے زہر اگلنا شروع کر دیا اور اکثر نے تو اس مسلم بچی کی موت کی دعائیں کرنا بھی شروع کر دیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک شرپسند نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں یہ بچی جلد مر جائے گی اس کے علاوہ ایک اور نے لکھا کہ ان گھٹیا لوگوں کو فوری ملک بدر کیا جائے۔ جب اس مہم نے شدت اختیار کر لی تو آسٹریا کے صدر کو درمیان میں آنا پڑا، آسٹریا کے صدر نے فیس بک پر کہا کہ خوش آمدید پیاری آسل! تمام لوگ آزاد پیدا ہوتے ہیں اور سب کا مرتبہ اور حقوق برابر ہوتے ہیں، پیدائشی طور پرکوئی کسی سے اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں ہوتا۔ آسٹریا کے صدر کے ان الفاظ کی وجہ سے اسلام مخالف شرپسندوں کے منہ بند ہوگئے۔ نئے سال کے آغاز میں دنیا میں آنے والے بچوں کا خوب چرچا رہا، ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق یورپی ملک آسٹریا میں نئے سال کے آغاز پر سب سے پہلے پیدا ہونے والی بچی مسلمان خاندان کی تھی، اس کی پیدائش کا سن کر سوشل میڈیا پر نسل پرستانہ مہم کا آغاز ہو گیا اس مہم نے تیزی سے شدت اختیار کی جس پر آسٹریا کے صدر کو درمیان میں آنا پڑا۔