تہران (این این آئی)ایرانی صدرایران کے صدر حسن روحانی نے یمن میں سعودی سربراہی میں اتحادیوں کی فضائی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمنی ان کے خلاف جارحیت کرنے والوں کو شرمندہ کریں گے۔حسن روحانی نے ٹیلی ویژن میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ یمن کے عوام ان کے خلاف جارحیت کرنے والوں کو ان کے عمل پر نادم کرادیں گے۔خیال رہے کہ ایرانی صدر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے
جب ایک روز قبل ہی یمن کے سابق صدر علی عبداللہ الصالح کو حوثی باغیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاچکا ہے جس کے نتیجے میں سعودی اتحادیوں کی جانب سے صنعا پر کارروائیوں میں تیزی آئی۔ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر محمد علی جعفری کا کہنا تھا کہ علی عبداللہ صالح کو اس لیے مارا گیا کیونکہ وہ حوثیوں کو پیچھے دھکیلنا چاہتے تھے۔یمن کے سابق صدر نے حال ہی میں حوثی باغیوں سے تین سالہ اتحاد کو توڑ کر سعودی اتحاد کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔محمد علی جعفری نے کہا کہ سعودی امریکا کے سایہ تلے خطے میں عدم استحکام کو بڑھانا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ کام کررہے ہیں اور ہم ان کی جانب سے حوثیوں کے خلاف کارروائی کے گواہ ہیں۔واضح رہے کہ خطے کے دونوں حریف سعودی عرب اور ایران یمن کی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف ہیں جہاں خانہ جنگی سے ہزاروں افراد اپنے جان ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے سنگین انسانی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے۔ایران حوثی باغیوں کے ساتھ تعاون کے تاثر کو رد کرتا ہے لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب پر فائر کیا گیا میزائل ایرانی ساختہ تھا۔حسن روحانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ چند مسلمان ممالک خطے میں ایران
کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے خدشے کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بڑھا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ چند اسلامی ممالک نے صہیونی حکومت سے اپنی قربت کا دھڑلے سے انکشاف کر لیا ہے۔ایرانی صدر نے کہا کہ اگر چند ممالک گزشتہ برسوں سے خطے میں اسلام کے دشمنوں سے خفیہ مذاکرات، رابطے اور تعاون میں مصروف تھے تو کم ازکم وہ عوام کے سامنے اس تاثر کو رد کردیں کیونکہ اس طرح کے تعلقات کو شرم ناک، ناپاک،
بدنیتی پر مبنی اور ناشائسہ تصور کیا جائے گا۔حسن روحانی نے مزید کہا کہ مجھے کوئی شک نہیں ہےکہ دنیا کے مسلمان اس بدشگون طریقے کو آسانی سے برداشت نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے گزشتہ ماہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک اور سعودی عرب اس بات پر مکمل طور پر متفق ہیں کہ ایران خطے کے لیے بڑا خطرہ ہے۔لیفٹیننٹ جنرل غادی ایزنکوت کا کہنا تھا کہ ان کی ریاست جدید عرب ریاستوں کے ساتھ
تجربات کے تبادلے اور ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے کو تیار ہے۔دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے اس بیان پر سرکاری سطح پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا تھا جبکہ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات کے حوالے سے معمولی امکان موجود ہے۔انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کا کہنا ہے کہ یمن کے دارالحکومت صنعا میں یکم دسمبر سے تاحال
جھڑپوں میں 234 افراد ہلاک اور 400 زخمی ہوگئے ہیں۔صنعا میں حوثی باغیوں اور سابق صدر علی عبداللہ الصالح کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کے حوالے سے آئی سی آر سی کے ترجمان صومایا بیلتفہ کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت ہمارے پاس 400 زخمیوں اور 234 افراد کی ہلاکت کی رپورٹ موجود ہے۔علی عبداللہ الصالح نے تین روز قبل ہی حوثی باغیوں سے تین سالہ اتحاد کو ختم کرتے ہوئے سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کو پیش کش کی
تھی کہ اگر پابندیوں کو ختم کیا گیا تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔تاہم علی عبداللہ الصالح کی پیش کش ناکام ہوئی کیونکہ انھیں ان کے فورسز اور حوثی باغیوں کے درمیان ایک جھڑپ میں انھیں ہلاک کیا گیا جس کے بعد یمنی جنگ میں ایک نیا موڈ آگیا ہے۔یمن میں 2015 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں اور اب اقوام متحدہ کی جانب سے یمن میں ایک سنگین انسانی بحران پید ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ تنازعات کے خاتمے کا انحصار سعودی عرب اور حریف ایران کے درمیان جاری کشیدگی پر ہے۔