منامہ(این این آئی)بحرین نے کہا ہے کہ اس کو قطر سے اپنی غصب شدہ سرزمین واپس لینے کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔بحرین گذشتہ صدی کے دوران میں اپنی اس اراضی سے قطر کے حق میں دستبردار ہوگیا تھا یا پھر اس نے بھائی چارے میں اس پڑوسی ریاست کو یہ اراضی پٹے پر دے دی تھی۔بحرین نے حالیہ خلیج
بحران کے دوران میں اس سے پہلے قطر سے اراضی لوٹانے کا مطالبہ نہیں کیا ہے اور اس نے بھی اپنے اتحادی تین عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر قطر کے خلاف مختلف سفارتی اور تجارتی پابندیاں عاید کررکھی ہیں۔بحرین کی سرکاری خبررساں ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 1900کے عشرے میں بحرین اپنے خود مختار علاقے کے بعض حصوں سے دستبردار ہوگیا تھا۔سرحدوں کے اس طرح تعین کی تفصیل معاصر تاریخ میں درج ہے اور اس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے۔بعد ازاں 1950ء کے عشرے میں بحرین کے ایک شمالی علا قے پر ایک غیرملکی قوت کی مدد سے قبضہ کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد سرحدوں کی از سر نو حد بندی کی گئی تھی۔بحرین کے جائز حقوق کی قیمت پر شمال میں سرحدوں میں توسیع کر لی گئی تھی اور دوحہ سے بیس کلومیٹر جنوب میں واقع ام الشبرم سے لے کر سلوا کے علاقے تک حلول کے جزیرے کو قطر میں شامل کر لیا گیا تھا۔قطر کی ان نئی سرحدوں کی تیل کی سرحد کی ضروریات کے مطابق حد بندی کی گئی تھی اور یہ حد بندی برطانوی پٹرولیم کمپنی کو رعایتیں دینے کے لیے کی گئی تھی۔اب بحرین کا کہنا ہے کہ اس کو جبری طور پر چھینی گئی اپنی اس زمین کو واپس لینے اور شمالی علاقے پر
قطر کی عمل داری کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے۔تاہم جب خلیجی ممالک خلیج تعاون کونسل کے قیام کے لیے مل بیٹھے تھے تو انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ بھائی چارے کے فروغ کے لیے پرانے تنازعات کو نہیں چھیڑا جائے گا اور کونسل کو مضبوط کو کیا جائے گا۔