واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے کہاہے کہ پاکستان معلومات فراہم کرنے پر اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے تاہم ٹرمپ انتظامیہ اسے درست ثابت ہونے کے لیے ایک موقع دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق سینیٹ کی فارن رلیشنز کمیٹی یا (غیر ملکی تعلقات کی کمیٹی) کی سماعت کے دوران رپبلکن پارٹی کی ذیلی جماعت ویومنگ رپبلکن کے سینیٹر جان براسو نے ریکس ٹلرسن
سے اپنے دورہ پاکستان کے بارے میں سوال کیا کہ وہ پاکستانیوں (پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقات میں) سے جو سن کر آئے ہیں وہ سماعت کے دوران بتائیں۔امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا کہ پاکستانیوں نے اشارہ دیا ہے کہ اگر ہم انہیں دہشت گردوں کی معلومات فراہم کریں تو وہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہیں، لہٰذا ہم تجربہ کے طور پر مخصوص خفیہ معلومات فراہم کرکے انہیں ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔سینیٹر براسو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی 21 اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کی نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنے کا رویہ تبدیل ہوچکا ہے۔انہوں نے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو یاد دلایا کہ جنوبی ایشیا کے دورے سے قبل وہ حکومت پاکستان سے ’چند امیدوں‘ اور معلومات کے تبادلے اور پر کارروائی کے ذریعے تعاون کے مکینزم کی بات کر رہے تھے۔تاہم ریکس ٹلرسن نے بتایا کہ وہ اس سماعت کے دوران اپنے دورہ اسلام آباد کی وسیع شکل پیش کر سکتے ہیں لیکن اگر پارلیمنٹیرینز امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ سے مزید جاننا چاہتے ہیں تو انہیں ان کے ساتھ ایک بند کمرہ سماعت میں بیٹھنا پڑے گا۔امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ افغانستان میں امن قائم ہونے سے پاکستان کو ہی سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی اپنے دو ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت کے ساتھ سرحدیں غیر مستحکم ہیں لہٰذا اسلام آباد کو واضح پیغام دیا کہ آپ کو اپنے ملک میں وسیع پیمانے پر استحکام لانے کا آغاز کرنا ہوگا جس کا مطلب ہے کہ آپ کو ان دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہوگا جو آپ کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا دورہ اسلام آباد پاکستان کے لیے افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے میں راہیں ہموار کرے گا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے ساتھ مبینہ تعلقات ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گروپ ماضی میں خطے میں مستحکم ہوئے تاہم اب ایسا ممکن نہیں ہے۔انہوں نے الزامات دہراتے ہوئے کہاکہ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرکے اپنے طویل المدتی استحکام اور روشن مستقبل کے بارے میں سوچے۔