لندن(مانیٹرنگ ڈیسک)برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے خواتین پر جنسی حملوں کے انکشافات کے بعد حکومت نے ان الزامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ حملوں میں ملوث ارکان کے مستعفی ہونے کا امکان ہے۔ ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سمیت نامور اداکاراؤں اور خواتین صحافیوں کی جانب سے ہولی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر جنسی ہراساں کرنے اور ریپ کے الزامات کے بعد سوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ نامی مہم کا آغاز ہوا
جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور اب تک لاکھوں خواتین اس ٹرینڈ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز اٹھا چکی ہیں اور اب اس مہم کے ذریعے برطانیہ کے بعض ایوان نمائندگان کے ارکان کے خواتین پر جنسی حملوں کے انکشافات نے تہلکہ مچادیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ ویسٹ منسٹر میں کام کرنے والی خواتین نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا جس میں خواتین نے کابینہ میں شامل بعض اراکین پر سنگین الزام عائد کیے۔ واٹس ایپ گروپ میں متعدد خواتین نے الزام عائد کیا کہ بعض ارکان پارلیمنٹ نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا، گروپ میں متاثرہ خواتین نے جنسی حملوں میں ملوث اراکین کے نام بھی ظاہر کیے تاہم یہ نام تاحال منظر عام پر نہیں آسکے۔ویسٹ منسٹرعملے کی خواتین نے کئی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ٹیکسی میں سفر کو خطرناک قراردیا اور بعض خواتین نے ایوان نمائندگان کے ارکان کے ساتھ لفٹ میں نہ جانے کا بھی فیصلہ کیا۔برطانوی میڈیا کے مطابق جنسی اسکینڈل پر برطانوی حکومت میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور حکومت نے مبینہ جنسی حملوں کو مملکت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے، جنسی ہراساں کرنے کے الزامات کے بعد حملوں میں ملوث ارکان کے مستعفی ہونے کا امکان ہے۔