ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان سے بازیاب ہونے والے امریکی خاتون نے امریکہ اور پاکستان دونوں کو جھوٹا قرار دیدیا، نیا پنڈورہ باکس کھل گیا

datetime 26  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کینیڈا(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان سے بازیاب ہونے والے کینیڈین جوڑے نے کہا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کی جانب سے انھیں اور ان کے اہل خانہ کو افغان سرحد پار کرتے ہوئے بازیاب کروانے کے دعوے جھوٹے ہیں۔کینیڈا کے اخبار ’ٹورنٹو اسٹار‘ کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں انھوں ںے کہا کہ ہم اس دن (11 اکتوبر) کو پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے تھے۔بلکہ ہم پاکستان میں اس جگہ پر ایک سال سے بھی زائد عرصے

سے موجود تھے۔اوٹاوا ہسپتال میں اخبار کے نمائندے مچل شیفرڈ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہر کوئی الزام لگارہا ہے اور دعوے کر رہا ہے، پاکستان کا کہنا کہ ہم اس دن سے قبل کبھی پاکستان نہیں تھے، امریکا کا کہنا کہ ہمیشہ سے پاکستان میں تھے اور یہ پاکستان کی ذمہ داری تھی، ‘ان دونوں دعووں میں کوئی سچائی نہیں.کیٹلن نے قید کے دوران اپنے نومولود بچی کی ہلاکت کے بارے بتایا کہ یہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے ان کے شوہر جوشوا کو تنظیم میں شمولیت کی دعوت کو ٹھکرانے کانتیجہ تھا، ‘وہ بہت غصہ میں تھے کیونکہ انھوں نے جوشوا کو ان کے ساتھ شامل ہونے اور کام کرنے کو کہا گیا تھا اور انھوں نے کہا تھا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘انھوں نے کھانا کھلاکر بچی کو ماردیا، انھوں نے غذا میں اوسٹروجن کی بھاری مقدار ملا دی تھی۔انھوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کو فارسی زبان سمجھ آنے کی وجہ سے انہیں اپنے قید کے مقام کا پتہ چل جاتا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ 2014 اور 2015 میں کثرت سے ہماری جگہ تبدیل کی جاتی رہی اور ان ہی دنوں ان سے جبری طور پر حمل ضائع کروایا گیا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا عمل بھی ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ جس کے بعد انھیں موسٰ گھر منتقل کیا گیا جو افغانستان کی سرحد پر کابل سے جنوب مشرق میں ہے، جہاں مہینوں رکھا گیا۔بازیاب خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے حراست کے آخری لمحات دار الموسیٰ میں گزارے

جہاں انھیں گزشتہ سال نومبر کے مہینے سے بازیاب کرائے جانے کے دو دن قبل تک قید رکھا گیا تھا۔11 اکتوبر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’رہائی سے قبل اغوا کار اس دن ان کو گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ دونوں اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی، ہم نے مدد کے لیے بھی نہیں پکارا کیوں کہ ہم خوفزدہ تھے کہ کہیں حقانی نیٹ ورک کا کوئی دوسرا گروہ ہمیں اغوا تو نہیں کرنا چاہتا‘۔انھوں

نے بتایا کہ انھیں یہ یاد نہیں کہ جب انھیں یہ پتہ چلا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی اہلکار تھے تو ان کا ردعمل کیا تھا ‘میراخیال ہے میں تقریباً سکتے کی حالت میں تھیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…