بغداد(خصوصی رپورٹ)عراق کے خود مختار شمالی علاقے کردستان کے صدر مسعود بارزانی نے کہا ہے کہ سوموار کو آزادی ریفر نڈم پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوگا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وہ علاقائی دارالحکومت اربیل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر کرد عوام ( ریفرنڈم کے ذریعے ) اپنے حق خود ارادیت کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟
صرف آزادی کے ذریعے ہی ہم اپنا تحفظ کرسکتے ہیں۔انھوں نے بغداد حکومت کے حکام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ دارالحکومت میں برسوں سے جاری ضرررساں اقدامات کے نتیجے میں وہ کردستان میں ریفرنڈم کرانے کے فیصلے پر مجبور ہوئے تھے۔مسعود بارزانی نے کہا کہ کرد ریفرنڈم فی الوقت پہلا قدم ہے اور اس کا مقصد از سرنو سرحدوں کا تعیّن کرنا ہے اور نہ یہ بغداد پر ’’اسٹیٹس کو ‘‘ کا نفاذ ہے۔انھوں نے اپنی ملیشیا البیش المرکہ کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ کرد جنگجو عراقی فوج اور بین الاقوامی فورسز کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ادھرترکی اور ایران کو یہ تشویش لاحق ہے کہ شمالی عراق میں کردستان کی آزاد ریاست کے قیام کی صورت میں ان کی اپنی کرد اقلیتیں بھی آزادی کا ایسا مطالبہ کرسکتی ہیں یا اس آزاد کردستان میں شامل ہو نے کے لیے تحریک چلا سکتی ہیں جبکہ بغداد حکومت اس کو وفاق کی سالمیت کے خلاف قرار دے رہی ہے اور وہ اس کی سخت مخالفت کررہی ہے۔عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ خود مختار کردستان میں سوموار کو ہونے والے آزادی ریفرنڈم کے دوران بد امنی کے واقعات رو نما ہوسکتے ہیں۔
اس لیے وہ ان علاقوں میں سفر سے گریز کریں۔غیرملکی خبررسا ںادارے کے مطابق سفارت خانے نے اایک سفری انتباہ جاری کیا اور کہا کہ امریکی شہریوں کو خاص طور پر کردستان کی علاقائی حکومت اور عراق کی وفاقی حکومت کے درمیان متنازع علاقوں میں سفر سے گریز کرنا چاہیے۔کردستان کی علاقائی حکومت بغداد حکومت ، اقوام متحدہ ، امریکا اور برطانیہ کی مخالفت کے باوجود 25 ستمبر کو آزادی کے نام پر ریفرینڈم منعقد کرا رہی ہے اور اس نے ان ممالک کی اپیلوں کے باوجود اس ریفرینڈم کو موخر نہیں کیا ہے۔عراق کے ہمسایہ ممالک ترکی اور ایران بھی اس ریفرینڈم کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ عراقی کردستان سے متصل ان کے کرد اکثریتی علاقوں میں بھی علاحدگی کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں ۔ترکی کے کرد اکثریتی علاقے میں علاحدگی پسند پہلے ہی مرکزی حکومت کے خلاف مسلح تحریک چلا رہے ہیں اور وہ آئے دن سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہتے ہیں۔