واشنگٹن (اے پی پی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق نئی حکمت عملی جس میں بھارت کو افغانستان میں وسیع کردار دینے کا اشارہ کیا گیا ہے ، مستقبل میں نئی دہلی کو پاکستان کے ساتھ نئی پراکسی وار شروع کرنے کا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔ اس بات کا اظہار آن لائن امریکی جریدے دی ہیل میں شائع ایک آرٹیکل میں کیا گیا ہے۔امریکی میڈیا ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے جنوبی ایشیاءکے خطے پر اثرات کا باریک
بینی سے جائزہ لے رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی نئی پالیسی پاکستان کو غصہ دلاسکتی ہے جو امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دینے کے باوجود محسوس کر رہا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ مضمون کے مطابق پاکستان دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں 70ہزار جانیں قربان کرنے کے ساتھ 100ارب ڈالر کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اقتصادی نقصانات سے دو چار ہوا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کی طرف سے بھارت کو یہ کہنا کہ ہماری جنگ میں ہماری مزید مدد کرو کے جواب میں ٹرمپ کو نئی دہلی کی جانب سے مسکراہٹ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مضمون جو کہ فیڈریک ایس پرڈی سکول آف گلوبل سٹڈیڑ بوسٹن یونیورسٹی کے بانی ڈین عادل نجم نے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے بھارت کو افغانستان میں بڑا کردار دینے کا عندیہ بھارت کو افغانستان میں پاکستان کو نئے پراکسی وار میں گھسیٹ لانے کا لائسنس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات سے پریشان ہے کہ اس کو اپنے مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر گھیر لینے کی بات کی جارہی ہے۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کی نئی پالیسی دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ہمسایوں کو آپس میں لڑا سکتی ہے جبکہ اس سے قبل 70سال سے امریکا کی پالیسی جنوبی ایشیاءمیں امن کو استحکام دینے کیلئے دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے روکنے کی تھیں۔
صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی نے پاکستان کو تکلیف دی ہے اور اشتعال دلایا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی اپوزیشن نے شاندار طریقے سے متحد ہو کر امریکی صدر کی پالیسی کی مخالفت کی ہے۔حکومت ، اپوزیشن ، فوج اور سول سوسائٹی تمام ٹرمپ پالیسی کو رد کر رہے ہیں کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان اپنے آپ اپنے وسائل سے بڑھ کر امریکی لڑائی لڑے اور پاکستان پہلے ہی امریکا سے ملنے والی تمام امداد سے زیادہ خرچ کر چکا ہے ، چاہے وہ انسانی وسائل تھے یا مالی تھے۔