نیویارک(این این آئی)سازشوں اور دولت مندی کا دارالحکومت، جی ہاں امریکی اخبار نے قطر کے دارالحکومت دوحہ کی فضاؤں کا وصف اس عبارت کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس کی عمارتوں کے اطراف کا احاطہ کیے ہوئے تعیّش کے پیچھے جنگجوؤں ، مالی رقوم فراہم کرنے والوں اور نظریاتی شخصیات کا ایک حیران کن گروہ پایا جاتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اخبار نے اس منظر کو مختصرا یوں بیان کیا ہے کہ یہاں مقامی آبادی اور اْن مقیم افراد کا امتزاج ہے جن میں جلا وطنی گزارنے والے شامی ، اسلام پسند لیبیائی اور سوڈانی رہ نما شامل ہیں۔
امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں قطر میں 100 کے قریب طالبان ذمے داروں کی اپنے خاندانوں سمیت موجودگی کا حوالہ دیا جو امریکی یونی ورسٹی کے کیمپس کے اطراف آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں۔قطر میں امریکی فوجی اڈہ بھی پایا جاتا ہے جہاں 9 ہزار عسکری اہل کاروں کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں جو داعش اور طالبان کے ٹھکانوں پر بم باری کے لیے اڑان بھرتے ہیں۔دوحہ حکومت کے تضاد کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطر نے اْن مالی رقوم کی طرف سے آنکھیں موند رکھی ہیں جو شام میں شدت پسندوں کو بھیجی جا رہی ہیں۔اخبار کے مطابق حماس تنظیم کے ذمے دار جن میں تنظیم کے سیاسی بیورو کے سابق سربراہ خالد مشعل شامل ہیں دوحہ میں برطانوی سفارت خانے کے قریب ایک بنگلے میں رہتے ہیں۔دوسری جانب قطر میں 1996 سے 2008 کے درمیان اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کا دفتر بھی موجود تھا۔اسی طرح آل ثانی خاندان نے صدام حسین کے گھرانے ، اسامہ بن لادن کے ایک بیٹے اور چیچن جنگی رہ نما زیلم خان یانداربیف کا بھی استقبال کیا تھا۔ زیلم خان کو 2004 میں روس کے خفیہ ایجنٹوں نے ہلاک کر دیا تھا۔اخبار نے اپنی رپورٹ کے اختتام پر کہا کہ ڈیوڈ وربرٹ کی قطر کے متعلق کتاب کے مطابق ایسا ملک ہے جہاں وہ شورش پھیلانے والے افراد پناہ لیتے ہیں جن کو اپنے ممالک میں ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔