بیجنگ (آئی این پی )’’تھوسائی ڈیڈس ٹریپ ‘‘ ایک ایسا محاورہ ہے جو ابھرتے ہوئے اور موجودہ برتری والے کے درمیان تنازعات کے امکان کی وضاحت کرتا ہے جسے اکثر چین اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے تا ہم ایک ممتاز سکالر اس کے بارے میں متشکک ہے اور کہا ہے کہ یہ خطرناک نظریہ ہے ، تھوسائی ڈیڈس ٹریپ جو ہاورڈ کینیڈی سکول کے پروفیسر گراہم الیسن نے مقبول کرایا ،
اس نظریے سے متعلق ہے کہ کوئی ابھرتی ہوئی قوت مسلمہ طاقت میں خوف پیدا کرتی ہے جو تنازعات یا جنگ میں اضافے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے ، بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں ممتاز بھارتی نژاد کینیڈین سکالر اور مشہور کتاب امریکی ’’ عالمی نظام کا اختتام کا خاتمہ ‘‘کے مصنف ا امیتابھ اچاریہ نے چینی سرکاری خبررساں ایجنسی شنہوا کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ یہ ( تھوسائی ڈیڈس ٹریپ ) خود ساختہ پیشنگوئی بن سکتی ہے یہ خطرناک ہے کیونکہ آپ یہ سوچنا شروع کرتے ہیں کہ اس نظریے کا یہ حصہ کسی طورپر تحلیلی اہمیت کا حامل ہے ،اچاریہ نے کہا کہ تھوسائی ڈیڈس ٹریپ کانظریہ انتہائی سادہ ترین اور انتہائی حساس ترین تھا ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹریپ کا بنیادی مقصد دوسری چوائس یا کوئی ناگزیر تنازعہ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو امریکہ اور نہ ہی چین کچھ زیادہ کر سکتا ہے تاہم ان کو یقین ہے کہ امریکہ اورچین کے تعلقات میں اگر کشیدگی ، شکوک شبہات یا اعتماد کا فقدان ہو گا تو مفاہمت کی بھی کوئی مقدار ہو گی ،اپریل میں چین اور امریکہ کے درمیان رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے دوران قائم ہونیوالے ڈائیلاگ کو اچھا اقدام قراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک مذاکرات کرتے رہیں گے اور باقی دنیا کیلئے کوئی راستہ تلاش کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک انتہائی آزاد ہیں ۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ چین اورامریکہ کے درمیان تجارت نصف ٹریلین تک پہنچ گئی ہے اور امریکی ٹریژری بلز میں 1.5ٹریلین ڈالر سے زیادہ چینی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ اس قسم کی کسی سکیل کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں آپ مذاکرات کرنے اور اس سے نمٹنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو پھر آپ جنگ نہیں کرتے ہیں۔اچاریہ کے رائے سے سکالروں کی اچھی خاصی تعداد نے اتفاق کیا ہے جنہوں نے ’’ تھوسائی ڈیڈس ٹریپ ‘‘ کے نظریے کو چیلنج کیا ہے ۔