امریکہ کی مدد سے پاکستان پر حملے،افغانستان کا خطرناک منصوبہ سامنے آگیا،زلمے خلیل زادکے سنگین دعوے

3  جون‬‮  2017

واشنگٹن (آئی این پی)سابق امریکی سفارت کار اور واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشل اسڈیز کے اسکالر زلمے خلیل زاد نے کابل کے سفارتی علاقے میں ہونے والے حملے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے معمول کی دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا ، افغان حکومت کو امریکہ کے ساتھ مل کر اس طرح کے حملوں کی روک تھام کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔

امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ اس نے صورت حال کر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افغان باشندوں کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے۔ اس حملے کو معمول کا حملہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے طور پر کام کرنے والے خلیل زاد نے کہا کہ بڑے حجم کے ایسے حملوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے یہ طے کریں کہ اس حملے کا ذمہ دار کون ہے۔ اگر یہ حقانی نیٹ ورک کی کارروائی ہے جو پاکستان کے لیے پراکسی کا کردار ادا کرنے والا گروپ ہے تو پھر یہ بہت ضروری گا کہ پاکستان میں ان اہداف کو نشانہ بنایا جائے جن کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے۔ان کے الفاظ میں امریکہ کو چاہے کہ وہ اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پاکستان پر دبا ڈالے اور اگر پاکستان اس کی حمایت کرنے سے باز نہ آئے تو پھر اسے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کر دینا چاہیے۔زلمے خلیل زاد نے, جن کے کابل حملے کے بعد کئی امریکی میڈیا چینلز پر انٹرویوز نشر ہو چکے ہیں، اس حملے کو نئی امریکی انتظامیہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف دہشت گردی کا ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ دہشت گردوں کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کا ایک ٹیسٹ ہے کہ وہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرتی ہے۔

اگر اسے معمول کا ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تو اس سے دہشت گردوں کے حوصلے اور بلند ہو جائیں گے ا ور وہ آئندہ اس سے بھی بڑے حجم کے حملے کریں گے۔زلمے خلیل زاد ، وہائٹ ہاس ، محکمہ خارجہ اور پینٹاگان میں پالیسی سازی کے امور سے منسلک رہ چکے ہیں اور جنوبی ایشیائی خطے کے حوالے سے ان کی ایک اپنی سوچ ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں الزام لگایا کہ پاکستان کی انتظامیہ مسلسل یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ وہ حقانیوں کی مدد نہیں کرتی۔

ان کا کہنا تھا کہ براک اوباما کی انتظامیہ نے بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں کے لیے پاکستان پر دبا ڈالا تھا لیکن اس وقت امریکہ کی ایک لاکھ سے زیادہ فوج افغانستان میں موجود تھی اور اس کی سپلائی لائن پاکستان سے ہو کر گذرتی تھی۔ اس لیے دبا ؤ کا حربہ کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ لیکن اب افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی محدود ہے اور امریکہ پاکستان پر دبا ڈالنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔

ان کے بقول اگر ان واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدام نہ کیے گئے تو نہ صرف افغان حکومت کے مسائل میں اضافہ ہوگا بلکہ افغان امریکہ تعلقات کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے۔سابق امریکی سفارت کار خلیل زاد نے کہا کہ اس وقت امریکہ کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کرے۔ اس کام کے لیے یہ سازگار وقت ہے کیونکہ ان دنوں ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور افغانستان کے لیے اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی اپنی سرحد کے اندر موجودگی اور اس کے ساتھ رابطوں کے الزامات کو مسلسل مسترد کرتا آ رہا ہے۔ حال ہی میں کابل حملے کے بعد جب صدر اشرف غنی کی انتظامیہ نے پاکستان پر انگلیاں اٹھائیں تو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا تھا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن و استحکام سے منسلک ہے اور الزامات کی بجائے انٹیلی جینس شیئرنگ اور مربوط کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے وہ خود برسوں سے دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور اس کا جانی اور مالی نقصان دنیا کے ہر ملک سے زیادہ ہے۔ اور وہ اپنی سرزمین کو کبھی بھی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے گا۔



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…