سرینگر/لندن(آئی این پی )مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے وادی میں فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا کی 16 ویب سائٹس تک عوامی رسائی روکنے کا اعلان کردیا ۔برطانوی میڈیا کے مطابق دفترِ داخلہ نے ایک حکم نامے میں 1885 میں برطانوی دور کے دوران بنائے گئے انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ حکومت امن عامہ کے مفاد میں یہ اقدام اٹھا رہی ہے۔یہ پابندی کم از کم ایک ماہ کی مدت تک رہے گی۔
سرکاری اعلان کے مطابق کشمیریوں کو فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، کیو کیو، وی چیٹ، کیوزون، ٹمبلر، گوگل پلس، بائیڈو، سکائپ، وائبر، لائن، سنیپ چیٹ، پنٹریسٹ، انسٹا گرام اور ریڈ اٹ تک رسائی نہیں ہوگی۔یہ حکم ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب منگل کو سرینگر میں بھارتی فوج، نیم فوجی اداروں، خفیہ سروسز اور سول انتظامیہ کا ایک اعلی اجلاس منعقد ہوا تھا جس کی صدارت وزیرِ اعلی محبوبہ مفتی نے کی تھی۔اس اجلاس میں وادی میں آئندہ تین ماہ کے لیے سکیورٹی ایجنڈا مرتب کیا گیا تاہم اس کی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔خیال رہے کہ کشمیر کے کشیدہ حالات میں سماجی رابطوں کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہی تھا اور اس حکومتی پابندی پر عوامی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔صحافیوں، تاجروں اور طلبہ نے اس فیصلے کو ‘انسانیت کے خلاف جرم’ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت ایسا کر کے ‘اعترافِ شکست’ کر رہی ہے۔ وزیرِ اعلی محبوبہ مفتی نے کشمیر میں جاری کشیدگی کے حوالے سے نئی دلی میں وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کی جس کے بعد انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت کے بغیر کسی اور چیز سے ممکن نہیں اور دو دن بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔مقبوضہکشمیر میں گذشتہ برس نوجوان عسکریت پسند رہنما برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد علاقے میں احتجاج اور مظاہروں کی لہر پھیل گئی تھی۔
چھ ماہ تک حالات انتہائی کشیدہ رہے اور تقریبا 100 مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ایکشن میں شہد ہوچکے ہیں۔رواں سال اپریل میں جو کشمیر کی پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے ضمنی انتخابات کرائے گئے تو حالات پھر سے کشیدہ ہوگئے۔ نو اپریل سے اب تک مظاہروں میں دس افرادشہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔گذشتہ کئی ہفتوں سے اب طلبا و طالبات سڑکوں پر ہند مخالف مظاہرے کر رہے ہیں جس کے بعد حکومت آئے روز تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان کرتی رہی ہے۔