نیویارک(آئی این پی ) امریکا نے شام کے صدر بشار الاسد کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا ہے کہ اب بشارالاسد کا جانا ناگزیر ہوچکا ہے، داعش کو شکست دینا، شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کرنا اور شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کو ختم کرنا امریکا کی ترجیحات ہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے امریکی ٹی وی ’’سی این این ‘‘ کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ شام میں اقتدار کی
تبدیلی اب ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔ نکی ہیلے نے شام کے حوالے سے امریکی ترجیحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ داعش کو شکست دینا، شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کرنا اور شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کو ختم کرنا امریکا کی ترجیحات ہیں۔نکی ہیلے کا مزید کہنا تھا کہ بشار الاسد کی موجودگی میں ہمیں پرامن شام کا قیام ممکن نظر نہیں آتا۔یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے شامی فضائی اڈوں پر بمباری سے قبل نکی ہیلے کا موقف ذرا مختلف تھا اور 30 مارچ کو انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بشار الاسد کو عہدے سے ہٹتا ہوا دیکھنا امریکا کی ترجیحات میں شامل نہیں۔تاہم جمعرات 6 اپریل کو شامی فضائی اڈے پر امریکی حملے کے بعد نکی ہیلے کے موقف میں تبدیلی امریکا کی حکمت عملی میں آنے والی تبدیلی کا اشارہ ہوسکتی ہے۔خیال رہے کہ 6 اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹی وی پر شام میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے کے نتیجے میں متاثر ہونے والے بچوں کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد حملے کا حکم جاری کیا تھا۔دوسری جانب روس اور ایران کی افواج نے شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔روس اور ایران شامی صدر بشار الاسد کے حامی ہیں اور وہ اسد حکومت کے خلاف لڑنے والی ہر قوت کو دہشت گردی تصور کرتے ہیں۔شام پر امریکی حملے کے بعد روس اور ایران کے آرمی چیفس
کے درمیان غیر معمولی رابطہ ہوا۔روس کے آرمی چیف جنرل والرے گیراسیموف اور ایران کے میجر جنرل محمد باقری نے ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کی۔دونوں آرمی چیفس نے شامی فضائی اڈے پر امریکی حملے کی مذمت کی اور اسے ایک آزاد ملک کے خلاف جارحیت قرار دیا۔علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا کہنا ہے کہ انہیں شام پر حملے کے بعد روس کی جانب سے جوابی کارروائی کا کوئی ڈر نہیں کیوں کہ روسیوں کو کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا اور شام میں داعش کو شکست دینا امریکا کی اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بار شام میں داعش کا خطرہ کم یا مکمل ختم ہوجائے پھر ہم شام کی صورتحال کو مستحکم کرنے کی جانب توجہ مبذول کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ مارچ 2011 سے شام میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے اب خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکے ہیں جس میں اب تک تین لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔