تہران (آئی این پی)ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینیر عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کی حکومت نے امریکا اور ایران کی شہریت رکھنے والے ایک صحافی جیسن رضائیان کو رہا کرانے کے لیے تہران کو ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر تاوان ادا کیا تھا۔خیال رہے کہ رضائیان کو ایرانی فوج نے جولائی 2014 میں حراست میں لیا تھا۔
امریکی حکومت کی جانب سے اسے رہا کرنے کا متعدد بار مطالبہ سامنے آیا تھا۔خبر رساں ایجنسی مہر کی رپورٹ کے مطابق صحافی کی رہائی کے بدلے میں امریکا سے ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر کی رقم وصول کرنے کا دعوی پاسداران انقلاپ کے انٹیلی جنس امور کے ڈپٹی چیف حسین نجات نے حال ہی میں بو شہر میں ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔واضح رہیکہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایران میں نامہ نگار جیسن رضائیان پر ایران نے جاسوسی نیٹ تشکیل دینے کا الزام عاید کیا تھا۔ حسین نجات نے کہا کہ سابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے متعدد بار اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ رضائیان کو رہا کرائیں۔ آخر کار امریکا نے اس کی رہائی کے بدلے میں ایران کو ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر تاوان ادا کیا تھا۔رضائیان کو جولائی 2014 کو تہران میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس وقت وہ اخبارواشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار تھے۔ 11 اکتوبر 2015 کو ایران کی ایک انقلاب عدالت نے قید کی سزا سنائی تھی تاہم اس کی مدت ظاہر نہیں کی گئی تھی۔یہ خبریں پہلے بھی آچکی ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے ایران میں گرفتار امریکیوں کی رہائی کے لیے تہران کو تاوان ادا کیا تھا تاہم امریکا ان خبروں کی تردید کرتا رہا ہے۔ ان خبروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما پر تنقید کا موقع فراہم کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ ڈیل کے تحت تین امریکی شہریوں کو جاسوسی کیالزام میں سزائیں ہونے کے باوجود رہا کیا گیا تھا۔امریکی اخبارات کے مطابق اوباما حکومت نے جنوری 2016 کو چار امریکیوں کی ایران میں رہائی کے روز واشنگٹن سے 40 کروڑ ڈالر کی رقم خفیہ طور پر ایران کو بھیجی گئی تھی۔ یہ رقم ہوائی جہاز کے ذریعے تہران پہنچائی گئی۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ رقم ایران میں ولایت فقیہ کے انقلاب سے قبل بادشاہ کے دور میں امریکا کو اسلحہ کیحصول کے لیے ادا کی گئی تھی تاہم انقلاب کی وجہ سے یہ معاہدہ انجام کو نہیں پہنچ سکا تھا۔امریکی حکام کا کہنا ہے
کہ رقم کی ایک دوسری قسط لکڑی کے صندوقوں میں ڈال کر ایران بھیجی گئی۔ اس میں سوئس فرنک اور یورو کرنسیوں کی شکل میں ایران کو ہوائی جہازوں کے ذریعے پہنچائی گئی۔امریکی اور ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے تہران کو خفیہ طور پررقم اس لیے منتقل کی گئی کیونکہ اس وقت ایران پر بنکوں کے توسط سے لین دین پر پابندیاں عاید تھیں اور ایران عالمی بنکوں کے ذریعے رقم لینے کا مجاز نہیں تھا۔ رقوم کی منتقلی کا اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔