اسلام آباد(آئی این پی )چین کی رینمن یونیورسٹی کے سینئر ریسرچ فیلو جو رونگ نے کہا کہ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) نے چین کے سنکیانک علاقے کو پاکستان سے خوراک کی بحری ترسیل میں اضافے پر زبردست اثرات مرتب کئے ہیں ۔دوطرفہ تجارت پر سی پیک کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں زبردست کردارادا کیا
ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سے سنکیانک کو بحری راستے سے اشیاء کی ترسیل میں 30سے40روز لگتے تھے لیکن اب ہم اشیاء کو چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کے ذریعے قریباً10روز میں وصول کر سکتے ہیں ۔یہ بات انہوں نے چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز کو بتائی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ چین کے ساحلی شہروں سے سمندری خوراک کی ٹرانسپوٹینگ کے مقابلے میں 10فیصد سستا ہے ۔گزشتہ ماہ درہ خنجراب کے راستے شمال مغربی چین کے سنکیانک یغور خودمختار علاقے میں کنٹینر کاروں کے ذریعے بھیجی جانے والی بحیرہ ہند کی سمندری خوراک کی پہلی کھیپ پہنچی ۔ اس طرح ٹش کوگن تاجک خودمختار موضع کاشغر کمشنری کو پہلی مرتبہ سمندری خوراک موصول ہوئی ہے ۔ کاشغر موفنگ وایو ٹیکنالوجی کمپنی کے صدر چین ہائی اویو نے کہا کہ ہم نے 26700ڈالر مالیت کی جھینگا مچھلی، قیرماہی اور سکویڈ سمیت 7.46ٹن سمندری خوراک درآمد کی ۔یہ زیادہ تر مغربی چین میں فروخت کی گئی ۔ منجمند سمندری خوراک جنوبی پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ سے شمالی پاکستان میں سست کی بندرگاہ کو بھیجی گئی جہاں سے اسے شاہراہ قراقرم کے راستے چین بھیجا گیا۔ چین نے کہا کہ کنٹینر کاروں نے نومبر2016میں
پاکستان سے آغاز کیا اور موسم سرما کے لئے شاہراہ قراقرم کی بندش سے قبل درہ خنجراب میں داخل ہوئی ۔ بندش ہر سال دسمبر سے اپریل تک ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تہری ترسیل بامعنی ہے کیونکہ یہ 2013میں شاہراہ کی دوبارہ تعمیر اور کشادگی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان زمینی تجارت میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہے ۔درہ خنجراب کے سربراہ کائولی نے کہا کہ زمینی چینل کے
ذریعے سمندری خوراک کی درآمد کی پہلی ترسیل سے دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا اور اس کا دوسری کمپنیوں پر آزمائشی اثر پڑے گا ۔چین ہر سال اوسطاً 3.9ملین سے لیکر4.1ملین ٹن سمندری خوراک درآمد کرتا ہے ۔ اگرچہ پاکستان سے اس کا تناسب کم ہے ۔ یہ بات چائنہ ایکیوٹیک پروڈکٹس پراسیسنگ اور مارکیٹنگ ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین اوئی یی نے بتائی ہے ۔ یہ جنوبی اییشیائی
ملک چین کے سرفہرست 20سمندری خوراک کے درآمد کنندگان میں شامل نہیں ہے تاہم پاکستان سمندری خوراک کا زیادہ حصہ استعمال نہیں کرتا ہے اور اس کی سمندری خوراک کے وسائل کافی محفوظ رہتے ہیں ۔ توقع ہے کہ سنکیانک کو زمینی راستے سے سمندری خوراک کی ترسیل کو فروغ دیا جائے گا ۔ یہ بات انہوں نے گلوبل ٹائمز کو بتائی ہے ۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت
کا98فیصد سمندر کے راستے سے ہوتا ہے ۔کائو نے کہا کہ باقی 2فیصد تجارت درہ خنجراب کے راستے ہوتی ہے ۔ جہاں تک چینی کمپنیوں کا تعلق ہے توقع ہے کہ وہ پاکستان کو سیمینٹ اور فولاد جیسے تعمیراتی سامان اور بڑے مکینیکل آلات کی خشکی کے راستے برآمدات میں اضافہ کریں گی کیونکہ انہوں نے سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچوں کے مزید منصوبوں کے معاہدے کئے ہیں ۔ مزید
برآں سی پیک نے ملکی کمپنیوں کیلئے پاکستان کو اشیاء کی ٹرانسپورٹ کو زیادہ سہل بنا دیا ہے ۔جہاں یہ اشیاء سست کے شمالی شہر میں پہنچ سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کنٹینر کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے بھیجے جاتے تھے جہاں انہیں کسٹمسز سے گزرنا پڑتا تھا۔ شینجن یی جنگ یوآن گروپ کو کاشغر مووفنگ بائیو ٹیکنالوجی کمپنی کی اصل کمپنی ہے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایڈائی
وونگ نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ کمپنی دوسرے مرحلے میں کپاس اور چینی درآمدکرتی رہے گی ۔ دریں اثناء ان کی فرم ملک کو مناسب لاگت والے ملبوسات کی برآمد کیلئے پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے ۔ پاکستان کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے اطلاع دی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹرانسپورٹ کو مزید بہتر بنانے کیلئے شاہراہ کے نیٹ ورک کی
تعمیر کیلئے 2017میں خاصی رقم مختص کرے گا ۔جو نے کہا کہ سی پیک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت میں ہوشربا تبدیلیاں آئیں گی تاہم اسے مغربی چین میں ضروری بنیادی ڈھانچے اور صارفین کی کم مانگ کے فقدان سمیت کئی عوامل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مثلاً مشرق وسطی اور چین کو ملانے والی پاکستان کی ایک آئل اور گیس پائپ لائن کو منسلک نہیں کیا گیا
ہے ۔انہوں نے وضاحت کی اس طرح یہ ملک تیل کی ترسیل کی فیس حاصل نہیں کرسکتا ۔اگرچہ شاہراہ قراقرم کے بارے میں توقع ہے کہ اس کی بدولت دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان خشکی کے راستے تجارت کو فروغ ملے گا تاہم معروضی عوامل نے اس امر کا اندازہ کرنا مشکل بنا دیا ہے کہ راہداری ان کی دوطرفہ تجارت میں کس قدر ادا کرے گی ۔ شاہراہ کی قریباً6سے10میٹر چوڑائی جو کافی
ٹریفک کو ہینڈل نہیں کر سکے گی اور پیچیدہ جغرافیائی حالات کی وجہ سے پہاڑی تودے لڑک سکتے ہیں ۔جو نے کہا سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاہراہ موسم سرما میں بند ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی ٹرانسپورٹیشن کا حجم محدود ہوجاتا ہے ۔کوئی نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ پاکستان کی سپلائی لیول اور مغربی چین کی کھپت کی مانگ ایک اور مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارت میں اضافے کیلئے سنکیانک اور مغربی چین کو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی سے اشیاء کی اپنی مانگ میں اضافہ کرنا ہوگا۔