تہران(این این آئی)ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل حسن فیروزآبادی نے خبردار کیا ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف ہونے والی سازشوں کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، مرشد اعلیٰ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی باتیں ملک کی سالمیت کے خلاف سازشوں کے مترادف ہیں۔ایران کے ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں بتایاگیا ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے ایک تجویز یہ بھی سامنےآئی ہے کہ فرد واحد کو تاحیات سپریم لیڈر کے طورپر منتخب کرنے کے بجائے ’زعماء کونسل‘ کو یہ کام سونپا جائے گو باہمی مشورے سے ریاستی امور کو چلا سکے۔ پچھلے ہفتے سابق صدر اور گارڈین کونسل کے چیئرمین علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے کہا تھا کہ ماہرین کونسل کے ارکان’زعماء کونسل‘ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دینے پر غور کرسکتے ہیں جو سپریم لیڈر کی جگہ پر خدمات انجام دے گی۔سابق صدر کے اس بیان پر مسلح افواج کے چیف جنرل حسن فیروز آبادی نے سخت لہجے میں کہا کہ ملکی تاریخ میں ’زعماء کونسل‘ کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ ہی آج تک فوج کو کسی کونسل نے کمانڈ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مخالفین کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے زعماء کونسل کے نام سے ایک نئی سازش شروع کردی تاکہ ایران کی دیرینہ اور مستحکم قیادت کو توڑا جا سکے۔ میں واضح کرتا ہوں کہ جب ملک کی زمام کار کسی کونسل کے ہاتھ میں ہوگی تو ملک مسائل سے دوچار ہوجائے گا،یہاں یہ امر قابل ذکر رہے کہ ایران میں سپریم لیڈر ہی فوج کا کمانڈ ان چیف ہوتا ہے جو نہ صرف مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر کرنے کا مجاز ہے بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں، کابینہ کے وزراء کا تقرر کرنے کے ساتھ خارجہ پالیسی اورجوہری پروگرام کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کا مجاز ہے جب کہ اس کے مقابلے میں صدر کے پاس اختیار بہت محدود ہوتے ہیں۔ایران میں سپریم لیڈر کی اختیاراتی اجارہ داری سے ملک کے دوسرے مقتدر حلقے تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہران میں ایوان صدر اور سپریم لیڈر کے دفتر کے درمیان بھی رسا کشی پائی جاتی رہی ہے۔ اس وقت سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔ ان کی عمر78 برس ہے اور وہ کچھ عرصے سے علیل ہیں۔روں سال جب عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان تہران کے متنازع ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ طے پایا تو اس میں اہم کردار سابق صدر علی اکبر ہاشمی اور موجودہ حسن روحانی کا سمجھا گیا۔ یہی وجہ کہ اس سمجھوتے کے نتیجے میں صدر حسن روحانی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔