کوپن ہیگن(نیوزوڈیسک)ڈنمارک کی عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین میں شمولیت کوناممکن بنادیا ہے اورکہاہے کہ یورپی محکموں کے ستھ قریبی تعاون قائم نہیں کیاجانا چاہیے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز ڈینش عوام نے ایک ریفرنڈم میں عوام نے یورپی محکموں کے ساتھ قریبی تعاون قائم کے خلاف فیصلہ دیا۔ سرکاری اعلان کے مطابق 53.1 فیصد عوام کا خیال ہے کہ ڈنمارک کو اپنے انصاف اور داخلہ کے امور میں مستقبل میں بھی آزاد رہ کر سرگرم عمل رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس 46.9 فیصد نے یورپی یونین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حق میں فیصلہ دیا۔برطانیہ اور آئرلینڈ کی طرح ڈنمارک کو بھی ایک طویل عرصے تک یورپی یونین کے چند قوانین سے استثنیٰ حاصل رہا ہے تاہم اب متعدد اہم سیاستدان ڈینش حکومت کو کچھ ایسے یورپی قوانین اپنانے کا مشورہ دے رہے تھے، جن کی مدد سے سرحد پار جرائم کو روکا جا سکتا ہو۔ ڈینش پیپلز پارٹی کے رہنما کرسٹیان ڈال نے بتایاکہ ڈینش عوام کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ معاملات کو برسلز کے سہارے چھوڑنے کا مطلب ا±نہیں ایک غیر شفاف نظام کے حوالے کرنا اور اپنی جمہوریت کے ایک بڑے حصے سے محروم ہونا ہے‘۔ ڈینش وزیراعظم لارس لوکے راسموسن کے مطابق عوام نے اپنی رائے واضح طور پر دے دی ہے،یہ نتیجہ عوام میں یورپی یونین کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات کا عکاس ہے۔ اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ میٹے فریڈیرکسن نے ردعمل میں کہاکہ وہ ڈینش عوام کی اس رائے کا احترام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈنمارک کو یورپ کا ایک حصہ بھی قرار دیا۔اس نتیجے کو ڈینش حکومت کے لیے ایک بڑی شکست سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ ملکی پولیس کو یورو پول میں شامل کیا جائے۔ تاہم ریفرنڈم کا نتیجہ ان منصوبوں کے لیے بھی ایک دھچکے سے کم نہیں۔ لزبن معاہدے کے تحت یورو پول آئندہ برس سے یورپی سطح کا ایک ایسا محکمہ ہو گا، جو یورپی یونین کے انصاف اور داخلہ کے وزراءکی نگرانی میں ہو گا۔ اس ریفرنڈم کے نتائج کے بعد بھی ڈنمارک اگر یورو پول کا حصہ بننا چاہتا ہے تو اسے ایک متوازی معاہدے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔