واشنگٹن(نیوزڈیسک)امریکی صدر براک اوباما نے واضح کیا ہے کہ عراق میں داعش کے خلاف جنگ کے لیے خصوصی فورسز کے مزید دستے بھیجنے کا فیصلہ 2003ءکی طرح امریکا کی اس ملک پر چڑھائی کا اشارہ نہیں ہے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک انٹرویومیں امریکی صدر براک اوباما نے کہاکہ جب میں نے یہ کہا کہ برسرزمین کوئی بوٹ نہیں ہوں گے،میرے خیال امریکی عوام عمومی طور پر اس سے یہ سمجھے تھے کہ ہم ”عراق پر چڑھائی” کے طرز کی عراق یا شام میں مداخلت نہیں کرنے جارہے ہیں۔میں اس بات میں بہت واضح ہوں کہ ہم داعش پر منظم انداز میں قابو پانے اور بالآخر اس کو تباہ کرنے جارہے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہمیں فوجی درکار ہیں۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ان کی یہ انٹرویو جمعرات کی شب نشر کیا گیا ہے،امریکہ کے صدرنے کہاکہ عراق میں داعش کے جنگجوو¿ں کے خلاف فوجی مہم میں معاونت کے لیے امریکا کی خصوصی آپریشنز فورسز کے قریباً ایک سو فوجی تعینات کیے جائیں گے۔قبل ازیں امریکی صدر نے عراق میں خصوصی فورسز کے صرف پچاس فوجی بھیجنے کا اعلان کیا تھا مگر اب ان کی تعداد بڑھا کر ایک سو کر دی گئی ہے۔دریں اثناءعراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ملک میں داعش کے خلاف جنگ کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کی فوج کی تعینات کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ عراق میں غیر ملکی فوج کی تعیناتی کو ایک جارحانہ اقدام تصورکیاجائیگا،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز فیس بک صفحے پر جاری کردہ ایک بیان میں عراقی وزیراعظم حیدالعباعدی نے کہاکہ امریکہ سمیت کسی ملک سے عراق میں برّی فوج بھیجنے کی درخواست نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی ایسا کوئی اارداہ ہے ،عراق داعش سے خود نمٹ لے گا داعش سے نمٹنے کے لیے ہمیں کسی کوی مدد نہیں چاہیے ،انھوں نے کہا کہ عراق میں غیرملکی فوج کی تعیناتی کو ایک جارحانہ اقدام تصور کیا جائےگا۔