منگل‬‮ ، 11 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

سعودی عرب نے وہ فیصلہ کردیاجس کا”سعودی خواتین “کوانتظارتھا

datetime 3  دسمبر‬‮  2015
JEDDAH, Saudi Arabia - OCTOBER 13: German Foreign Minister Frank-Walter Steinmeier (not pictured) meets Saudi Crown Prince and defense minister Salman bin Abdulaziz al-Saud in Jeddah on October 13, 2014 in Jeddah, Saudi Arabia.(Photo by Thomas Imo/Photothek via Getty Images)
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاض(نیوزڈیسک) سعودی عرب میں طلاق کے بڑھتے رجحان کے باعث طلاق یافتہ خواتین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن سعودی قوانین کے مطابق کسی بچے کو سکول میں داخل کروانے و دیگر امور کے لیے والد کی منظوری لازمی ہے، جس سے طلاق یافتہ یا بیوہ خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب سعودی حکومت نے اس حوالے سے قوانین میں ترامیم کرکے خواتین کو زیادہ بااختیار بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نئے قانون کے تحت مطلقہ یا بیوہ خواتین تمام گھریلو امور مرد کی منظوری کے بغیر سرانجام دے سکیں گی۔سعودی اخبار ”الریاض“ کی رپورٹ کے مطابق اس نئے قانون کے تحت سعودی وزارت داخلہ مردوں کے ساتھ ساتھ مطلقہ اور بیوہ خواتین کو فیملی شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے جس سے ان خواتین کو بھی وہی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو کسی گھر کے مرد سربراہ کو حاصل ہوتے ہیں۔وہ خواتین ازخود سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکیں گی، بچوں کو سکول داخل کروا سکیں گی اور میڈیکل رجسٹریشن و دیگر امور سرانجام دے سکیں گی۔ فی الوقت سعودی عرب میں زیادہ تر گھریلو امور کے قانونی اختیارات مرد کے پاس ہیں اورکوئی بھی عورت طلاق کے بعد بھی ان امور میں اپنے سابق شوہر کی منظوری کی محتاج ہوتی ہے۔اگر سابق شوہر اجازت نہ دے تو خاتون بچوں کا سکول میں داخلہ تک نہیں کروا سکتی۔فیملی کارڈ چونکہ مرد کے پاس ہوتا ہے اس لیے خاتون کو ہر کام کرنے حتیٰ کہ اپنے یا بچوں کے علاج کے لیے ہسپتال جانے کے لیے بھی اپنے سابق شوہر کے پاس منظوری لینے کے لیے جانا پڑتا ہے۔مزید جانئے: سعودی عرب جانے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے انتہائی تشویشناک خبر، حکومت نے نئی شرط عائد کردی دالیا نامی ایک مطلقہ خاتون نے سعودی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں طلاق یافتہ خاتون ہوکر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے مگر نیا قانون بہت بڑی تبدیلی لائے گا۔ اس قانون سے تمام قانونی اور ثقافتی مسائل حل ہو جائیں گے۔دالیا ایک بچے کی ماں ہے۔ اسے 5سال قبل اس کے شوہر نے طلاق دے دی تھی اور اب وہ پانچ سال سے اپنے بچے کے ہمراہ جدہ میں رہ رہی ہے۔ دالیا کا کہنا تھا کہ فیملی کارڈ حاصل ہونے سے مطلقہ خواتین کو بھی فیملی کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور انہیں طلاق کے بعد بھی بار بار اپنے سابق شوہر کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)


یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…