ماسکو (نیوز ڈیسک) شام میں انسانی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا مگر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے لئے سفارتی تنہائی ختم کرنے کا ایک ” سنہری موقع“ ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق روس نے بشارالاسد کو فوجی مدد دی اور رواں ہفتے پیوٹن نے ’سفارتی حملہ‘ کرتے ہوئے اوباما سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے شام کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے فوجی حکام مذاکرات کریں۔ ماسکو یوکرین پر حملے کے بعد سے دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے۔ اقتصادی پابندیوں، سفارتی تنہائی، تیل کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے بھی اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے لئے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے پیوٹن چاہتے ہیں کہ مغرب سے حمایت حاصل کی جائے یا کم از کم مذاکرات کی نوعیت ہی بدل دی جائے۔ اس تناظر میں روس کے لئے شام ایک ”سنہری موقع“ کے طور پر سامنے آیا ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک عالمی کھلاڑی کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے۔کارنیگی ماسکو سنٹر کے فوجی تجزیہ کار الیکسی مالا شینکو کا کہنا ہے کہ پیوٹن صرف سابقہ سوویت یونین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنے طاقت کو بحال کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ شام اور اس کے اطراف میں صورتحال نے ایک موقع فراہم کیا ہے کہ روس مشرق وسطیٰ میں واپس آسکے۔ سیاسی تجزیہ کار کونسٹینٹن وون ایگرٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ بیک وقت دو کرسیوں پر بیٹھنا چاہتا ہے، ایک جانب وہ یوکرین کے معاملے پر ماسکو کو تنہائی کی جانب دھکیل رہا ہے اور دوسری جانب مشرق وسطیٰ اور ایران سے جوہری معاہدے پر حمایت کا طلب گار ہے۔ اس لئے واشنگٹن کا ماسکو کو تنہائی کی جانب دھکیلنے پر موقف کمزور ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں