منگل‬‮ ، 04 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

امریکی صدر نے مغویوں کی بازیابی کے لیے اپنے نمائندے کا تقرر کر دیا

datetime 29  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(نیوز ڈیسک)وائٹ ہاؤس سے جاری ایک علامیے کے مطابق اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد جیمز اوبرائن ’بیرون ملک اغوا ہونے والے امریکی شہریوں کی با حفاظت واپسی‘ یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے۔یہ قدم امریکی حکومت پر ہونے والی حالیہ تنقید کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ رواں سال کئی اموات کے بعد حکومت کو امریکی مغویوں کی رہائی کے معاملات سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔رواں سال جون میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے رشتے داروں کو اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ تاوان کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔اس سے پہلے تک امریکی حکومت کے اختیار میں تھا کہ اگر کوئی اپنے رشتے دار کو بچانے کے لیے تاوان کی ادائیگی کرنے کی کوشش کرے تو حکومت ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود محکمہ انصاف کی طرف سے کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔مسلح جنگجو گروہوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت برتنے پر طویل عرصے سے جاری پابندی کی پالیسی پر امریکی صدر براک اوباما کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔کچھ یورپی حکومتیں خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والے گروہ کے جنگجوؤں سے عراق اور شام میں اغوا ہونے والے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے تاوان ادا کرتی رہی ہیں۔ یہ بات سامنے آنے کے بعد سے امریکی حکومت پر دباؤ میں مزید اصافہ ہو گیا ہے۔ایک سال پہلے نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے امریکی صحافی جیمز فولی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ دوران قید انھیں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بھی ’جمز کے لیے جوابدہ‘ نہیں ہے۔نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں دوران قید فروری میں قتل ہونے والی امریکی امدادی کارکن کیلا میولر کے والد نے بھی مغویوں سے متعلق امریکی پالیسییوں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔اپنی بیٹی کی ہلاکت کی تصدیق ہونے کے دو ہفتے بعد امریکی ٹی وی چینل کے پروگرام این بی سی ٹوڈے سے گفتگو کرتے ہوئے کارل میولر کا کہنا تھا ’اْن لوگوں نے امریکی شہریوں کی زندگیوں پر پالیسی کو ترجیح دی‘۔دو ماہ قبل تبدیل ہونے ہونے والی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کو اپنی توجہ ’امریکی شہریوں کی ان کے گھر والوں تک محفوظ واپسی کے لیے سفارتی کوششیں‘ بہتر بنانے کی جانب مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سیجمعہ کو جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اوبرائن ’سفارتی اور بین الاقوامی طور پر مذاکرات کرنے کے وسیع تجربے کے باعث اس عہدے کے لیے منفرد اہلیت کے حامل ہیں۔‘اوبرائن اس سے پہلے بلقانی ریاستوں کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انھیں کہا گیا ہے کہ وہ مغوی امریکی شہریوں کے گھر والوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہ کر اْن کی باحفاظت واپسی کی کوششوں کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔



کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…