جمعہ‬‮ ، 21 فروری‬‮ 2025 

امریکی صدر نے مغویوں کی بازیابی کے لیے اپنے نمائندے کا تقرر کر دیا

datetime 29  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(نیوز ڈیسک)وائٹ ہاؤس سے جاری ایک علامیے کے مطابق اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد جیمز اوبرائن ’بیرون ملک اغوا ہونے والے امریکی شہریوں کی با حفاظت واپسی‘ یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے۔یہ قدم امریکی حکومت پر ہونے والی حالیہ تنقید کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ رواں سال کئی اموات کے بعد حکومت کو امریکی مغویوں کی رہائی کے معاملات سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔رواں سال جون میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے رشتے داروں کو اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ تاوان کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔اس سے پہلے تک امریکی حکومت کے اختیار میں تھا کہ اگر کوئی اپنے رشتے دار کو بچانے کے لیے تاوان کی ادائیگی کرنے کی کوشش کرے تو حکومت ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود محکمہ انصاف کی طرف سے کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔مسلح جنگجو گروہوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت برتنے پر طویل عرصے سے جاری پابندی کی پالیسی پر امریکی صدر براک اوباما کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔کچھ یورپی حکومتیں خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والے گروہ کے جنگجوؤں سے عراق اور شام میں اغوا ہونے والے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے تاوان ادا کرتی رہی ہیں۔ یہ بات سامنے آنے کے بعد سے امریکی حکومت پر دباؤ میں مزید اصافہ ہو گیا ہے۔ایک سال پہلے نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے امریکی صحافی جیمز فولی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ دوران قید انھیں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بھی ’جمز کے لیے جوابدہ‘ نہیں ہے۔نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں دوران قید فروری میں قتل ہونے والی امریکی امدادی کارکن کیلا میولر کے والد نے بھی مغویوں سے متعلق امریکی پالیسییوں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔اپنی بیٹی کی ہلاکت کی تصدیق ہونے کے دو ہفتے بعد امریکی ٹی وی چینل کے پروگرام این بی سی ٹوڈے سے گفتگو کرتے ہوئے کارل میولر کا کہنا تھا ’اْن لوگوں نے امریکی شہریوں کی زندگیوں پر پالیسی کو ترجیح دی‘۔دو ماہ قبل تبدیل ہونے ہونے والی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کو اپنی توجہ ’امریکی شہریوں کی ان کے گھر والوں تک محفوظ واپسی کے لیے سفارتی کوششیں‘ بہتر بنانے کی جانب مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سیجمعہ کو جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اوبرائن ’سفارتی اور بین الاقوامی طور پر مذاکرات کرنے کے وسیع تجربے کے باعث اس عہدے کے لیے منفرد اہلیت کے حامل ہیں۔‘اوبرائن اس سے پہلے بلقانی ریاستوں کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انھیں کہا گیا ہے کہ وہ مغوی امریکی شہریوں کے گھر والوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہ کر اْن کی باحفاظت واپسی کی کوششوں کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بخارا کا آدھا چاند


رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…