لیناکاتعلق داعش کی” اَل خانسہ پولیس“سے تھا۔ دوسال،شام اورعراق کے علاقے میں داعش کی قائم کردہ خلافت میں مختلف سرکاری کام سرانجام دیتی رہی ہے۔ خاتون نے حکومت کوانتہائی قریب سے دیکھاہے۔جبراورظلم کی سلطنت کوجس نسبت سے اس خاتون کودیکھنے کاموقع ملا ہے، وہ”خلافت“کے اندرونی پہلوو¿ں کواجاگرکرنے کی پہلی کوشش ہے۔لینااس وقت ترکی کے ایک نامعلوم مقام پرہے۔
مزید پڑھے: عمرا ن خان اورریحام خان میں دوریاں ،دونوں الگ الگ کیوں رہ رہے ہیں ؟ ایک دلچسپ انکشاف
ہردوسے چاردن کے بعداپناٹھکانہ بدل لیتی ہے۔ اسے یقین ہے کہ داعش کے جنگجواسے اوراس کے خاندان کوترکی میں قتل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔وہ ترکی سے آگے کہاں کاسفرکرے گی،اسے کوئی جواب نہیں آتا۔لینانے کئی حیرت انگیزانکشافات کیے ہیں۔ وہ داعش کے فلسفے سے شدیدمتاثرتھی۔وہ اوراس کا شوہر اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ سب سے پہلے لیناکوایک تربیتی کورس کرایا گیا۔خلاصہ بہت سادہ ساتھا کہ مذہب کا جو تصور داعش اور اس کی حکومت کاہے،صرف وہی درست ہے۔ اس تصورسے اختلاف کرنا واجب القتل ہے۔لینا نے یہ نصاب اورکورس مکمل کیا۔اسے کامل یقین تھاکہ جوکچھ بتایاجارہاہے،وہ بالکل درست ہے۔یہ بھی باور کرایا گیاکہ صرف اس کے فرقے کے لوگ مسلمان ہیں۔اس کے علاوہ باقی تمام کوقتل کرنا عین ثواب کاکام ہے۔کورس مکمل کرنے کے بعد،لیناکوحکومت کی طرف سے ذمے داریاں سونپی گئیں۔سب سے پہلے حکم ملاکہ وہ دیہاتوں اورقصبوں میں جائے۔تمام خواتین کوبتائے کہ یہ خلافت خدا نے قائم کی ہے لہٰذا ان تمام افرادپرفرض ہے کہ حکومت کی ہربات مانیں اورکسی قسم کوکوئی سوال نہ کریں۔ دوسرا اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔نافرمانی کی سزا انتہائی سخت ہوگی۔عورتوں کویہا ں تک بتایاجاتاتھاکہ اپنے خاندان سے باہرکسی مردسے بات بھی نہیں کرسکتیں۔ چہرہ ڈھانپنا تو خیر لازم ہے،مگرآنکھوں تک کوبھی مکمل پردے کے اندر ہونا چاہیے۔ ہاتھوں پردستانے ہونے چاہیے۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ لیناآٹھ دس مہینے یہ کام کرتی رہی۔ حکومت ”سوڈالر“یعنی پاکستانی دس ہزار روپے تنخواہ دیتی تھی۔کچھ عرصے کے بعد،لیناکوایک خاتون جج کے کلرک کے طورپرتعینات کردیاگیا۔ خاتون جج کانام ام عبداللہ اَل سعودتھا۔یہ صرف اورصرف خواتین کے مقدمات سنتی تھی۔ یہ عدالت ”رقا“ میں تھی جوداعش کادارالحکومت ہے۔ کام کرنے کی بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لیناکواب دوسوامریکی ڈالرملنے شروع ہوگئے۔اس کے لیے یہ بہت بڑی تنخواہ تھی۔عدالت میں انتہائی ہولناک واقعات دیکھنے سے اس کے خیالات میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی۔ام عبداللہ کی عدالت کے بالکل ساتھ،ایک اورخاتون جج کی عدالت تھی۔اسکانام راعا ام خطابہ اَل تنیسی تھا۔اس جج کاتعلق تیونس(Tunisia)سے تھا۔ مزاج کی درشت اورسفاک تھی۔ ملزمہ کوسنے بغیرسزاسنادیتی تھی۔کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ام عبداللہ اورراعاکے مزاج میں اتنا تفاوت تھا کہ چندماہ میں دونوں خواتین میں چھوٹی چھوٹی سرکاری امورپرسردجنگ شروع ہوگئی۔ام عبداللہ عورتوں کے معاملات کوسمجھتے ہوئے اکثرجگہ نرمی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ اس کی یہ نرمی راعاکے لیے ناقابل قبول تھی۔لینانے ان دونوں عدالتوں میں کلرک کی حیثیت سے نوٹس لینے شروع کردیے۔ گواہان کے بیانات،ملزم خواتین کے اعتراف جرم اور دیگر جرح سب کچھ لکھنا اس کی ذمے داری تھی۔ جج کے ساتھ منسلک اس تکلیف دہ تجربہ نے اس کی روح کوزخمی کردیا۔ایک ستائیس برس کی لڑکی نے اپنے موبائل فون پراپنی بڑی بہن کوایک پیغام بھیجا۔درج تھاکہ کس طرح اس کی زندگی داعش کی حکومت میں مشکل ہوچکی ہے۔پیغام میں داعش کی حکومت کے خلاف کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی۔نظام پرکوئی تنقیدنہیں تھی۔ لڑکی کوراعاجج نے سزائے موت کاحکم سنایا۔ اس کے نزدیک یہ معصوم پیغام غداری کے زمرے میں آتاتھا۔لڑکی کوقصبہ کے چوک میں لایا گیا۔ منادی کی گئی۔جب کافی لوگ جمع ہوگئے تواس کو جلادکے حوالے کردیاگیا۔جلادنے لڑکی کاسرایک لکڑی کے تنے پر رکھا اور اسے ذبح کردیا۔ ذبح کرنے کی باقاعدہ ویڈیوفلم بنائی گئی۔پھرلوگوں میں تقسیم کی گئی تاکہ ان میں خوف اور دہشت کی فضا کو مزید موثر بنایا جاسکے۔اس کے بالکل برعکس ام عبداللہ کارویہ مختلف تھا۔اس کے سامنے کسی عورت کے معمولی جرم کاایک کیس لایاگیا۔جرم کی سزامحض جرمانہ تھی۔ غریب عورت کے پاس عدالت میں جرمانہ جمع کروانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔جج نے اسے دس دروںکی سزادی۔مگراس سزاکوجج نے اس طرح پورا کرایاکہ چھوٹی سی پنسل سے اس نے غریب عورت کو معمولی سی چوٹ لگائی۔ سزابھی پوری ہوگئی اور غریب عورت بھی جرمانے سے بچ گئی۔راعاکی عدالت میں ایک ایسامقدمہ بھی آیاجس میں ایک عورت،کپڑے کی دکان میں ایک مردسے باتیں کرتی ہوئی گرفتارکی گئی۔ عورت نے عدالت میں بیان دیاکہ اس نے کسی غیرمردسے بات نہیں کی،کیونکہ وہ مرد اس کا شوہر تھا۔ مردکوحکم دیاگیاکہ وہ نکاح نامہ پیش کرے۔جب وہ اپنے گھرکاغذات لینے کے لیے گیاتواسی وقت جج نے شادی شدہ عورت کواَسی کوڑوں کی سزاسنادی۔بدقسمت عورت کوبازارمیں لایاگیا۔چادرمیں لپیٹ کرایک مردنے پوری قوت سے اَسی کوڑے مارے۔جب شوہرنکاح نامہ لے کراس جگہ پر پہنچاتو دیر ہوچکی تھی۔بدقسمت اورمظلوم عورت کے دونوں گردے، ضرب لگنے کی وجہ سے ختم ہوچکے تھے۔چنددن میں عورت مرگئی۔جرم یہی تھاکہ وہ اپنے خاوندسے دکان میں بات کررہی تھی۔خیردونوں جج خواتین کی سردجنگ بڑھتی چلی گئی۔ ایک دن مقامی پولیس آئی اورام عبداللہ کوگرفتارکرکے لے گئی۔ راعا نے اس پرالزام لگایاتھاکہ وہ شام کے لیے جاسوسی کرتی ہے۔ ام عبداللہ پرجاسوسی کے الزام کا مقدمہ راعاکے پاس لگایا گیا۔ دس سے پندرہ منٹ کی سماعت کے باعث ام عبداللہ کوسزائے موت کاحکم سنا دیا گیا۔ام عبداللہ کوسزائے موت کے حکم کے بعدجیل میں بند کردیا گیا اور وہ اپنی موت کاانتظارکرنے لگی۔ اس دورانیے میں راعا کا خاوندجوکہ جنگ میں شامل تھا، حادثے کا شکار ہوگیا۔ راعانے فوراً انتظامیہ سے درخواست کی کہ اسے دوسری شادی کی اجازت دی جائے۔دراصل یہ اس عورت کی چوتھی شادی تھی۔ اجازت ملنے کے بعدراعاکی ایک اور خواہش داعش کے سربراہ کوپیش کی گئی۔وہ یہ کہ سہاگ رات کواسے حکومت کی جانب سے ایک کافرعورت کا کٹا ہوا سر،تحفہ کے طورپرچاہیے۔خیراس پر سوچ بچار ہوئی۔ ایک شخص نے تجویز دی کہ کسی عورت قیدی کاسرکاٹ کرجج صاحبہ کے حجلہ عروسی میں بھیج دیاجائے۔راعاکی جانب سے یہ اصرارہواکہ اسے اپنی سہاگ رات کو اپنی ساتھی جج ام عبداللہ جو غداری کی مرتکب ہوئی تھی،صرف اورصرف اسکاسرچاہیے۔ یہ تجویزمان لی گئی۔جس دن راعاکی شادی تھی،اسی روزام عبداللہ کو بازار میں لایاگیا۔سب کے سامنے اسکوذبح کیا گیا۔ اس کا کٹا ہوا سر، تحفہ کے طورپرراعاکے حجلہ عروسی میں لٹکادیاگیا۔لیناجانتی تھی کہ ا م عبداللہ بے گناہ تھی۔ مگروہ کچھ نہ کرسکی۔ اس نے اپنے خاوندکوبہت مشکل سے قائل کیاکہ یہ وہ نظریہ نہیں جوانھیں بتایااورسمجھایاگیاتھا۔خیروہاں سے فرار ہونا بھی اتناآسان نہیں تھا۔اس دوران،ایک اور بچی کاکیس عدالت میں آیا۔اس پرالزام تھاکہ اس نے ٹھیک طرح لباس نہیں پہناہواتھا۔بچی کی والدہ نے بیان دیاکہ بچی ابھی نابالغ ہے مگرلمبے قدکی بدولت اپنی عمرسے بڑی نظرآتی ہے۔جج نے اس بچی کے پیدائش کاسرٹیفکیٹ لانے کاحکم دیا۔جب تک ماں بچی کے کاغذات لے کرپہنچی،جج صاحبہ چالیس کوڑوں کی سزاسناچکی تھی۔ سزاپرعمل درآمدبھی ہوچکاتھا۔لینانے جوانکشافات کیے ہیں،اس کے مطابق یورپ اور مختلف ایشائی ممالک سے کئی خواتین اس جگہ موجودہیں۔ جس قصبے پرداعش قبضہ کرتی ہے،وہاں کی خواتین اورلڑکیوں کومال غنیمت کے طورپرتقسیم کردیا جاتا ہے۔ ان میں اکثرچھوٹی چھوٹی بچیاں بھی ہوتی ہیں جوابھی بلوغت تک نہیں پہنچی ہوتیں۔لینابہت مصائب اوردشواری سے فرارہوکرترکی میں پناہ گزین ہے۔اس کے ذہن پراتنے گھاﺅ
ہیں کہ وہ نہ سوسکتی ہے،نہ کمرے سے باہرجانے کی ہمت رکھتی ہے۔ سارا سارا دن کھڑکی سے باہرخاموشی سے آسمان کودیکھتی رہتی ہے۔ کسی سے کوئی بات نہیں کرتی۔ہلکے سے شورسے گھبراکرچیخیں مارنا شروع کردیتی ہے۔وہ نہ زندہ ہے اورنہ ہی مردہ میں اس کے آگے کیالکھوں۔صرف یہ کہہ سکتاہوں کہ اگرپاکستان کی فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرتی توہمارے کئی شہراور قصبے بھی دہشت گردوں کے ہاتھ آسکتے تھے۔معصوم شہریوں، عورتوں اوربچوں سے کیاسلوک ہوتا،سوچتے ہوئے بھی دل کانپ جاتاہے۔