لاہور(نیوزڈیسک) کراچی نہ صرف دنیا کے بڑے شہروں سے ایک ہے بلکہ خطرناک جرائم پیشہ گروہوں کا ستایا ہوابھی ہے۔ جہاں منظم جرائم اپنے طرز اور محرکات کے حوالے سے دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کئی طرح سے مختلف ہیں۔معروف صحافی صابرشاہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ دنیا میں کہیں بھی جرائم پیشہ گروہوں کو سیاست دان تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان گینگسٹرز کا پولیس، ریاستی مشنری اور بیورو کریسی گٹھ جوڑ ہوتا ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز نہیں ہوتے جو بے لگام مافیاکی طرح کام کرتے ،شہروں کو کنٹرول اور سرکاری و کارپورٹ دفاتر میں دخل دیتے ہیں۔ قانون کے نفاذ کا پورا نظااور مشنری عملاً ان کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ان عناصرکو اس قدر سیاسی سرپرستی اور اہم عہدوں پر تعینات حکام کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ان کا پیچھا کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ کراچی کے عوام کو بھی تحفظ حاصل نہیں کہ وہ گینگسٹر ز کی سرگرمیوں میں رکاوٹ بن سکیں۔ اکثر جرائم پیشہ اور ان کا نشانہ بننے والے ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں لیکن خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیارات کرنے سے معذور ہے۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، قتل، اغواء برائے تاوان، منشیات، جعلی کرنسی کا کاروبار، اسمگلنگ ، دہشت گردی، جوا، سٹہ ،قخبہ خانے اور اسلحے کی اسمگلنگ دنیامیں عام ہے لیکن تشدد فرقہ واریت کی شکل میں کراچی کو اضافی مصیبت کا سامنا ہے۔ یہاں لسانی اور نسلی بنیادوں پر بھی تشدد بھی ہوتا ہے۔1947 سے لکر اب تک30 بار کرفیو بھی لگ چکا ہے۔ سیکڑوں افراد اس منافرت کی نذر ہوئے۔ سانحہ نائن الیون کے بعد سے فرقہ اریت نے ایک بے قابو عفریت کی شکل اختیار کرلی ہے۔غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد سے القاعدہ اور طالبان بھی سرگرم ہیں۔ کراچی کا کیس اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں ناجائز دولت کمانے کیلئے جرائم اور سیاست گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر کیا جارہا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی جرائم پیشہ گروہ پورے شہر کے معمولات زندگی مفلوج کردینے کی اصلاحیت نہیں رکھتا لیکن کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں سیاست دان جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی تو کرتے ہیں لیکن کہیں بھی مافیا کی شکل میں سیاسی جماعتوں کے عسکری بازو نہیں ہوتے۔ دنیا میں مافیاز ججوں، پراسیکیوٹرز، پولیس اہلکاروں اور سیاستدانوں کو قتل کردیتی ہیں۔ ایسا امریکا، برطانیہ ، بھارت، انٹلی، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں ہوتا ہے لیکن اس سے ان ممالک کی اقتصادی ترقی نہیں رکتی اور مجموعی امن و امان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکا میں جرائم پیشہ گروہوں کی ابتداء1783 میں امریکی انقلاب کے بعد ہوئی اور53 ایسے گروہوں کے ارکان اپریل 2011 تک فوج سے وابستہ رہے۔ایف بی آئی کے مطابق امریکا میں33500 جرائم پیشہ گروہ اور ان سے 14 لاکھ کارندے وابستہ ہیں۔ ان میں سے2 لاکھ 30 ہزار جیلوں میں پڑے ہیں۔ لاس اینجلس جہاں ہالی ووڈ واقع ہے، اسے ’’گینگ کیپٹل‘‘ قرار دیا گیا ہے۔1920 اور1930 کی دہائی میں دنیا کا خطرناک گینگسٹر الفونے گیبرئیل الکیپون7 سال تک شکاگو پر راج کرتا رہا۔ اسے شکاگو کے میٹرولیم ہیل تھامپسن اور مقامی پولیس کا تحفظ حاصل تھا۔1928 میں میئر کے انتخاب کیلئے الکیپون نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ولیم تھامپس کو ڈھائی لاکھ ڈالرز دیئے جس نے سخت مقابلے کے بعد ولیم ڈیور پر کامیابی حاصل کی۔ الکیپون کے کارندوں نے میئر کے انتخاب کے دن میئر تھامپسن کے15سیاسی مخالفین کو قتل بھی کیا۔ نومبر1931 میں اسے 11سال قید اور 50ہزار ڈالرز جرمانے کی سزا ہوئی۔ اس کی مالی طاقت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دسمبر1941 میں پرل ہاربر پر حملے کے چند گھنٹوں بعد امریکی سیکرٹ سروس نے صدر فرنکلن ڈی روز ویلٹ کو الکیپون کی بلٹ پروف کار میں منتقل کیا۔ اس وقت امریکی صدر کے پاس بلٹ پروف گاڑی نہیں ہوا کرتی تھی۔ ممبئی کے انڈر ورلڈ گینگز بھی بڑی خطرناک تصور کی جاتی ہیں لیکن وہ کبھی بھی کراچی کی طرح ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ البتہ اکتوبر1993 میں بھارتی مرکزی سیکریٹری داخلہ این این وہرا کی رپورٹ کے مطابق ممبئی کے جرائم پیشہ گروہوں کو سیاسی سرپرستی حاصل رہی اور حکومتی شخصیات نے انہیں تحفظ فراہم کیا۔ رپورٹ کے مطابق ممبئی کے جرائم پیشہ گروہوں کے بین الاقوامی کرمنل سنڈیکٹس سے بھی تعلقات ثابت ہوئے ۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جرائم پیشہ بلدیاتی، ریاستی اور پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی کامیاب ہوتے رہے۔ جاپانی گینگ لیڈر یکوزا جس کی گینگ میں چھوٹی انگلی کٹے100 کارندے شامل تھے۔ وہ غیر قانونی امیگریشن اور عصمت فروشی کو فروغ دینے میں ملوث رہا۔ آج اس کی گینگ میں ایک لاکھ سے زائد سرگرم کارندے ہیں۔2012 میں جاپانی وزیر انصاف کیشوتنا کا کویکوزا سے تعلق اور عطیات وصول کرنے کے الزام میں مستعفی ہونا پڑا۔ فروری2015 میں چین مافیا گاڈ فادر لیوہان کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ خطرناک گینگسٹر چار ارب20 کروڑ ڈالرز اثاثوں کا مالک بتایا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں سرگرم کو لمبیا کے ڈرگ کارٹلز بھی مشہور ہیں۔ ان کی سیاستدانوں، فوجی حکام اور قانونی ماہرین سے معاملات طے کرنے کیلئے تنظیمیں موجود ہیں ۔ یہ کارٹلز اغواء اور دہشتگردی کی وارداتوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی کی سسلی مافیا یا کوسار نوسٹرا نے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کو بھی قتل کردینے سے گریز نہیں کیا۔ روسی مافیا اسرائیل، ہنگری، اسپین، کینیڈا، جرمنی،برطانیہ، امریکا اور خود اپنے ملک میں سرگرم ہے۔ آسٹریلیا میں بھی گزشتہ100 سال سے سڈنی اور میلبورن میں ’’راکس پش‘‘ اور اطانوی نژاد گینگز سرگرم رہی ہیں۔ تاہم جنوبی آسٹریلیا میں کرائم گینگ ٹاسک فورس نے ان کا خاتمہ کردیا ہے۔ اس وقت کینیڈا کے شہروں وینکوور، ایڈمنٹن، کالگیری اور ٹورنٹو وغیرہ میں جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہیں