انقرہ (نیوزڈیسک)ترکی آئندہ چند ایام میں شامی علاقے میں اٹھارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ عسکری کارروائی کرسکتا ہے۔ تر ک ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں ترکی کی سرحد سے متصل علاقوں بالخصوص تل ابیض پر کرد جنگجوﺅں کے قبضے اور حلب کے اہم مقامات پر دولت اسلامیہ عراق وشام “داعش” کے غلبے کے بعد ترکی شام میں اپنی فوجیں داخل کرنے پر غور کررہا ہے کیونکہ ایک طرف کرد اکثریتی علاقوں میں کرد باغیوں اور دوسری طرف “داعش” کے بڑھتے خطرے کوروکنے کے لیے انقرہ کے لیے پیشگی کارروائی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔حکمراں جماعت “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ”[آق] کے مقرب اخبار “ینی شفق” کی رپورٹ کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیراعظم احمد داﺅد اوگلو شام میں کارروائی کے حوالے سے سخت دباﺅ میں ہیں۔ انہوں نے ترکی کی عسکری قیادت کو بھی کسی بھی ہنگامی حالت کے لیے 18 ہزار سپاہ تیار رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ترک اخبار کے مطابق حکومت کی شام میں فوجی مداخلت اس لیے ناگزیر ہوچکی ہے کیونکہ شمالی شام میں ترکمان اور عرب باشندوں کے علاقوں میں کرد جنگجو نسل پرستانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور دوسری نسلوں بالخصوص عربوں اور ترکمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کرشامی حکومت اور داعش کے تعاون کےساتھ ترکی کی سرحد پر الگ کرد ریاست کے قیام کی کوششیں ترکی کے لیے بھی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں کیونکہ ترکی بھی طویل عرصے تک کردوں کی علاحدگی پسندی کی تحریک کا سامنا کرتا رہا ہے۔اسی خطرے کی روک تھام کے لیے حالیہ دنوں میں صدر رجب طیب ایردوآن کی وزیراعظم، عسکری قیادت اور انٹیلی جنس حکام کے ساتھ میراتھن ملاقاتیں جاری رہی ہیں۔ فوج اور عسکری قیادت نے شمالی شام کی سرحد پر ایک حفاظتی حصار کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے اور آئندہ جمعہ تک انٹیلی جنس اور فوج سرحد پر مزید سخت اقدامات کی تیاریاں مکمل کرلیں گے۔اخباری رپورٹ کے مطابق صدر ایردوآن نے شام میں فوجی مداخلت کے حوالے سے ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت سے مسلسل چھ اہم اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔ وزیراعظم نے بھی فوج کو کسی بھی وقت شام میں کارروائی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے جب کہ آرمی چیف نجدت اوزال نے بھی باضابطہ طور پر شام کے اندر سے خطرے پر انتباہ کیا ہے۔اخبار”ینی شفق” کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ عسکری قیادت صدر اوروزیراعظم کے احکامات کی پابند ہے مگر اسے شام کے اندر بالخصوص حلب کے مضافات میں مارع کے علاقے میں مداخلت کے فیصلے پر تحفظات ہیں فوج اس مداخلت کو عالمی قانون کی خلاف ورزی سےتعبیر کرتی ہے۔ دوسری جانب ترک وزارت خارجہ شام میں فوجی مداخلت کے لیے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے لابنگ بھی کررہی ہے۔”السوریہ ڈاٹ نیٹ” ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق ترک حکومت شام میں اپنی سرحد سے متصل 110 کلو میٹر طویل پٹی میں 28 سے 33 کلو میٹر اندر تک جرابلس اور اعزاز کے علاقے کے درمیان کارروائی پر غور کررہی ہے۔