ریاض(نیوزڈیسک) تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کے چمکتے دمکتے شہر جدید طرز زندگی کے عکاس ہیں مگر اس ملک کے جنوب میں پھول پوش قبائل آباد ہیں جن کے لوگ سروں پر خوبصورت پھولوں کے گلدستے سجائے رکھتے ہیں مگر ان کے مزاج اس قدر جنگجو ہیں کہ سعودی پولیس بھی ان کا سامنا کرنے سے کتراتی ہے۔فوٹوگرافر ایرک لوفارگ بیرونی دنیا کے ان اکا دکا افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ان قبائل کے قریب جانے کی ہمت کی۔ ملک کے جنوب میں یمن کی سرحد کے ساتھ واقع حبالہ پہاڑیوں کے دامن میں آباد یہ قبائل اس قدر خونخوار ہیں کہ سعودی لوگ بھی ان کے علاقے کا رخ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ لوفارگ کہتے ہیں کہ وہ مقامی پولیس کی سیکیورٹی لے کر جب قبائلی گاں رجال آلما پہنچے تو یہاں 2,000 سال سے آباد لوگوں کا طرز زندگی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کے گاں پرانے زمانے کے قلعے نظر آ رہے تھے جن کے باہر نگرانی کیلئے چوکیاں بھی بنائی گئی تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی مقامی لوگوں نے چاقو نکال کر ان کا استقبال کیا مگر لوفارگ انہیں سمجھا بجھا کر کچھ شاندار تصاویر بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں ہر مرد اپنے سر پر تازہ پھولوں سے بنا ہار سجائے رکھتا ہے۔ یہ لوگ روزانہ پہاڑوں کے دامن سے موتئے، چنبیلی اور دیگر پھولوں کو چن کر ہار بناتے ہیں اور انہیں اپنے سر پر پگڑی کی طرح سجائے رکھتے ہیں۔ شاید یہ روایت پھولوں کے طبی فوائد کی وجہ سے شروع ہوئی۔ لوفارگ کا کہنا ہے کہ جب وہ ایک ریستوران میں داخل ہوئے تو اندر موجود خنجر بردار مقامی مردوں کے تیور بہت خطرناک نظر آئے اور ان کے ساتھی پولیس والے اسلحہ موجود ہونے کے باوجود سخت گھبرا گئے اور انہیں لوٹنے کا مشورہ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہاں ایک فرانسیسی ماہر بشریات تھری ماگر ان قبائلیوں کے قابو میں آ گیا تھا جس سے جنسی زیادتی بھی کی گئی لہذا انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ فورا پھول پوش قبائلیوں کی سرزمین سے نکل جائیں۔