اسلام آباد(نیوز ڈیسک)بھارتی اخبار کے مطابق پاکستانی تربیت یافتہ ڈاکٹرز بھارت میں جوتے فروخت کرتے ہیں، کوئی موبائل رپیئرنگ کی دکان پر اور کوئی اسپتال کے مردہ خانے میں لاشوں کو ٹھکانے لگاتا ہے، کوئی میڈیکل اسٹور پر اور کوئی خیراتی اسپتال میں سیو ا کرتا ہے۔ پاکستان کی بہترین میڈیکل یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ایم بی بی ایس،پاکستان میں ماہانہ لاکھوں کمانے والے آج بھارت میں چند ہزار روپے کی خاطر معمولی سی نوکری کیلئے دھکے کھا رہے ہیں، بھارتی شہریت نہ ہونے اور میڈیکل کونسل کی طرف سے اجات نہ ملنے کی وجہ سے وہ طبی شعبے میں خدمات انجام نہیں دے سکتے۔ بھارتی گجرات میں دو سو پاکستانی ڈاکٹر اسی طرح کی صورتحال سے دو چار ہیں۔ بھارتی اخبار”ٹائمز آف انڈیا“ لکھتا ہے کہ پاکستان سے تربیت یافتہ ڈاکٹر بھارتی شہر احمد آباد میں جوتے فروخت کرتے ہیں۔2001میں 38 سالہ دشراتھ کیلا نے بطور ڈاکٹر اپنے کیرئیر کا آغازماہانہ 25ہزار تنخواہ سے کیا۔ نو سال بعد اب وہ مانی نگر میں اپنے کزن کے جوتوں کے اسٹور پر اسسٹنٹ ہیں اور ماہانہ 15ہزار وصول کرتے ہیں۔ دشراتھ کیلا نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا اور2006میں اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے خوف سے پاکستان چھوڑ گیا۔ وہ بھارت میں ڈاکٹری کی پریکٹس اس لئے نہیں کرسکتے کہ ان کے پاس بھارت کا میڈیکل کونسل کا سرٹیفکیٹ نہیں۔ بھارتی گجرات میں پاکستان اور خصوصاً سندھ سے تعلق رکھنے والے دو سو کے قریب ڈاکٹرز ہیں،ا ن کے پاس طبی تعلیم اور مہارت ہے لیکن ان کے ہاتھ بھارتی شہریت کی بے یقینی صورتحال اور سرخ فیتہ کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں۔ انڈین میڈیکل کونسل کی اجازت کے بغیروہ طبی شعبے میں پریکٹس نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز بھارت میں میڈیکل اسٹورز، موبائل رپیئرنگ کی دکانوں پر کام کرتے ہیں جس سے انہیں بہت کم معاوضہ ملتاہے۔ان میں سے کچھ اسپتالوں میں قبرستان شفٹ میں کام کرتے ہیں اور اپنی خدمات رضاکارانہ یا خیراتی انداز میں پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کی قانونی طور پر خدمات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ زیادہ تر پاکستانی ڈاکٹرز اپنے جان کے خوف سے گجرات چلے گئے۔وہ یہ الزام دیتے ہیں کہ سماج دشمن عناصر کی طرف سے پاکستان میں مقیم ہندو برادری کی لڑکیوں کے اغوا اور بھتہ خوری کا سامنا ہے۔احمد آباد میں نقل مکانی کرنے والی سندھی آبادی اب اپنے قیام کو زیادہ پرسکون سمجھتی ہے۔ 46سالہ ڈاکٹر جیارام لوہانہ 2012ئ میں بھارت آنے سے قبل سندھ میں ماہانہ ایک لاکھ روپے کماتے تھے،ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مریض انہیں دیوتا کا روپ سمجھتے ہیں،یہاں بھارت میں زندہ رہنے اور ملازمت کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔اب وہ ائیرپورٹ کے نزدیک اپنے کزن کی موبائل رپیئرنگ شاپ پر کام کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم دہشت گردوں کے خوف سے یہاں آئے اور یہاں تحفظ پایا۔ لیکن کوئی بھی یہاں مدد دینے کو تیار نہیں۔ لوہانہ اب بیس ہزار ماہانہ پر ایک خیراتی اسپتال میں سیوا کرتے ہیں۔ انہوں نے دیہی علاقے میں ایک میڈیکل افسر کی ملازمت کیلئے درخواست دی ، ان کی درخواست میڈیکل کونسل ا?ف انڈیا کے پاس تصدیق کے لئے بھیجی گئی۔لیکن درخواست کی تصدیق کرنے سے اس لئے انکار کردیا گیا کیونکہ وہ بھارتی شہری نہیں ہیں۔میڈیکل کونسل آف انڈیا کے چیئرمین ڈاکٹر جے شری مہیتہ کا کہنا ہے کہ ایک غیر ملکی تعلیم یافتہ ڈاکٹر کو بھارتی شہریت حاصل کرنی پڑتی ہے اور بھارت میں ڈاکٹری پریکٹس کے لئے لازمی اسکریننگ ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔قواعد کے مطابق پاکستانی سات سال بھارت میں قیام کے بعد بھارتی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔اس عمل میں دو سے تین سال کا عرصہ لگتا ہے اور پھر MCI میں سرخ فیتہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔42 سالہ ڈاکٹر گردہری لال سنچانی نے 1997 میں کراچی سے ایم بی بی ایس کیا اور2001 میں بھارت آئے فروری 2014ءمیں انہیں بھارتی شہریت مل گئی لیکن اب انہیں میڈیکل کونسل آف انڈیا کی منظوری کا چودہ ماہ سے انتظار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں بہتر زندگی کیلئے آئے تھے ،یہاں تحفظ تو ہے لیکن باقی ملازمت ہے نہ کوئی کاروبار کرسکتے ہیں، نہ ہی انہیں جائیداد خریدنے کی اجازت ہے۔