اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ایرانی جیل میں سزائے موت کے 22 افراد کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے معافی مانگنے اور اپنی سزاﺅں میں تخفیف کا مطالبہ کرنے کے باوجود پھانسی دے دی گئی ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جنوبی تہران کے کرج شہرمیں قائم “قزل حصار” نامی جیل میں قید 22 ملزمان نے حال ہی میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے معافی مانگتے ہوئے اپنی سزاﺅں میں تخفیف کی اپیل کی تھی تاہم قیدیوں کے اس مطالبے کے ایک روز بعد انہیں اجتماعی طور پر سزائے موت دی دی گئی۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق سزائے موت کے قیدیوں نے حال ہی میں جیل میں با جماعت نماز کا اہتمام کیا، جہاں انہوں نے اللہ سے بھی گڑ گڑا کر دعائیں کی تھیں اور سپریم لیڈر سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ ان کی سزاﺅں میں تخفیف کرائیں تاہم اس کے اگلے ہی روز ان سب کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ موت سے ہمکنار کیے گئے قیدیوں میں سے بیشتر پر منشیات کے دھندے میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں نے حال ہی میں جیل کے اندر ایک پر امن مظاہرہ بھی کیا تھا جس میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے اپنے جرم کی معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔انسانی حقوق کے گروپوں کی رپورٹس کے مطابق پچھلے دو ہفتوں کے دوران بھی اسی جیل میں 22 قیدیوں کے ایک گروپ کو سزائے موت دے دی گئی تھی۔ یوں تین ہفتوں کے اندر “قزل حصار” جیل میں قید 44 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایران میں بعض معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث افراد کو سنگین نوعیت کی سزائیں سنائے جانے اوران سزاﺅں پر بے رحمی کے ساتھ عمل درآمد پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے تہران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر محمود امیری مقدم نے ‘العربیہ ڈاٹ نیٹ’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جن قیدیوں کو سزائے موت دی گئی ہے ان میں سے کسی کا بھی منصفانہ ٹرائل نہیں کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر پر دوران حراست تشدد کرنے کے بعد جرم مسلط کیا گیا حالانکہ ان میں کئی بے قصور بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ قیدی اپنے جرم کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت سے معافی مانگتے ہیں اور اپنے جرم سے توبہ تائب ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت انہیں معاف نہیں کرتی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ ایران میں جنگ کا قانون ہے اور کسی کی معافی کی درخواست پرغور تک نہیں کیا جاتا ہے۔محمود امیری نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران میں قیدیوں کو دی جانے والی ظالمانہ سزاﺅں کا نوٹس لے اور جیلوں میں بغیر کسی جرم کے ڈالے گئے قیدیوں کو دی گئی سزاﺅں پرعمل درآمد رکوائے۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کا دھندہ بلا شبہ ایک سنگین جرم ہے لیکن اگر کوئی اس سے توبہ تائب ہو کر اپنے جرم کی معافی مانگنا چاہے تو اسے سزادینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایران میں قیدیوں کو اندھا دھند پھانسی پر لٹکائے جانے کے رحجان کی اقوام متحدہ سمیت عالمی تنظیموں نے پھانسےوں کی شدےد الفاظ مےں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے تین ہفتوں میں 98 قیدیوں کو سزائے موت دیے جانا صریح ظلم ہے ۔