نیویارک/لندن(نیوزڈیسک) ایگزیکٹ آئی ٹی کمپنی کے جعلی ڈگریوں کا سکینڈل سامنے لانے والے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلین نے کہا ہے کہ مجھے پاکستانی میڈیا کے بارے میں تحقیق کے دوران ایگزیکٹ کمپنی کے کاروبار کا علم ہوا ، ایگزیکٹ کمپنی کے سابق ملازمین سے بات کرکے مجھے علم ہوا کہ یہ کمنپی ملازمین سے قانون معاہدے پر دستخط کرواتی ہے اور اس کمپنی کے ملازمین کھل کر اپنی نوکری کے بارے میں بتا نہیں سکتے، ایگزیکٹ کی جانب سے عدالتی کارروائی کی گئی تو میں اپنی رپورٹ کے دفاع کےلئے ثبوت پیش کروں گا۔ بدھ کو غےر ملکی میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ڈیکلین والش نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں ہونیوالی تبدیلیوں کے بارے میں کام کررہے تھے اور اسی سلسلے میں نئے آنیو الے چینل بول کے بارے میں بھی انہوں نے تحقیق کا آغاز کیا۔ اس کمپنی کے اصل کام کا پتا لگانے کی کوشش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ایگزیکٹ آئی ٹی کمپنی جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے ، ڈیکلین والش کا کہنا تھا کہ اس ادارے سے منسلک بہت سے صحافیوں سے بات کرنے کے بعد انہیں حقیقت معلوم ہوئی اور بہت سے شواہد ملے ہیں جن کا میں اپنی رپورٹ میں ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کے شعبے میں اپنے ذرائع کا دراع کرنا آج کی بات نہیں ہے اور اگر ایگزیکٹ کی جانب سے عدالتی کارروائی کی گئی تو میں اپنی رپورٹ کے دفاع میں اس کا سامنا کرنے کےلئے تیا رہوں۔انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ کمپنی کے سابق ملازمین سے بات کرکے مجھے علم ہوا کہ یہ کمنپی ملازمین سے قانون معاہدے پر دستخط کرواتی ہے اور اس کمپنی کے ملازمین کھل کر اپنی نوکری کے بارے میں بتا نہیں سکتے۔ امریکی صحافی نے کہا کہ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان میں اس رپورٹ کو کاروباری رقابت کےلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور بہت کچھ مزید سامنے آرہا ہے۔