اسلام آباد(نیوز ڈیسک) فرانس کے ایک اسکول میں پندرہ سالہ مسلمان لڑکی کو لمبی سیاہ اسکرٹ پہننے پر دو مرتبہ کلاس روم سے نکال کر گھر بھیج دیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں اسکول کے قوانین پر بحث شروع ہو گئی ہے۔پندرہ سالہ سارہ فرانس کے شمالی شہر شارلیول میزییریس کے ایک ہائی اسکول میں پڑھتی ہیں۔ سارہ کو دو دن تک صرف اس وجہ سے اسکول سے واپس بھیج دیا گیا کیونکہ اس نے لمبی سیاہ اسکرٹ پہن رکھی ہوتی تھی۔ اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ سارہ کا لباس اس ملکی قوانین کے خلاف ہے، جو اسکولوں میں سیکولر ازم کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس سن 2004ء میں فرانس میں ایک ایسا قانون پاس کیا گیا تھا، جس کے تحت تمام پرائمری اور اسکینڈری اسکولوں میں مذہبی علامتوں والی اشیاءپہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس قانون کے تحت اسکول میں نہ تو اسکارف پہنا جا سکتا ہے، نہ ہی یہودی اپنی مخصوص ٹوپی پہن سکتے ہیں اور نہ ہی دیگر مذاہب کے لوگ اپنی مذہبی علامتیں پہن سکتے ہیں۔مقامی تعلیمی افسر پیٹرس کا فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ” لڑکی کو اسکول سے خارج نہیں کیا گیا تھا۔ طالبہ سے کہا گیا تھا کہ وہ نیوٹرل کپڑے پہن کر واپس آ سکتی ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ اس کا والد ایسا نہیں چاہتا تھا۔“ اسکول انتظامیہ کے مطابق مسئلہ اسکرٹ نہیں ہے لیکن طالبہ اسے مذہبی علامت کے طور پر پہنتی ہے۔دوسری جانب سارہ کی دلیل یہ تھی کہ وہ اسکارف نہیں پہن رہی بلکہ یہ اسکرٹ کا مسئلہ ہے اور اسکرٹ کوئی ظاہری مذہبی علامت نہیں ہے۔ ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سارہ کا کہنا تھا، ” اسکرٹ میں کوئی خاص چیز نہیں تھی، سادہ سا کپڑا تھا، کوئی بات نمایاں نہیں تھی، اس پر کوئی مذہبی نشانی نہیں تھی۔“ریمز اکیڈمی سروسز کا کہنا ہے کہ سارہ ان پانچ لڑکیوں کے گروپ کا حصہ تھی، جنہوں نے چند ہی ہفتے پہلے لیو لاگرینج اسکول میں داخلہ لیا تھا اور یہ سبھی لانگ اسکرٹ پہنتی تھیں۔ اسکول میں داخل ہونے سے پہلے یہ لڑکیاں قانون کے مطابق اپنا اسکارف اتار لیتی تھیں۔اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد اسکول انتظامیہ کے خلاف نہ صرف فرانس میں احتجاج شروع ہوا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ اس کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ کے ساتھ یہ فقرہ شیئر کیا جانے لگا، ”میں ویسی ہی اسکرٹ پہنوں گی، جیسی مجھے پسند ہے۔یاد رہے کہ فرانس کے اسکولوں میں اسکارف پر پابندی کے بعد سے درجنوں مسلمان لڑکیاں تعلیم مکمل کیے بغیر ہی اسکول چھوڑ چکی ہیں۔ اب فرانس میں یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا یونیورسٹی لیول پر بھی مذہبی علامات پہننے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے اور جس دن اسکولوں کی کنٹینوں میں سور کا گوشت پکایا جائے ، اس دن کوئی متبادل کھانا بھی آفر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ ابھی تک سارہ کے معاملے کا کوئی بھی حل سامنے نہیں آیا ہے جبکہ اسکول انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ سارہ کے والدین سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔فرانس نے حال ہی میں عوامی سطح پر برقع پہننے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔