اسلام آباد(نیوز ڈیسک)تھائی لینڈ کی اعلیٰ ترین عدالت نے ملک کی سابق وزیرِ اعظم ینگ لک شیناوترا پر چاولوں کی زیادہ قیمت پر خریداری کے معاملے میں فوجداری مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔تھائی سپریم کورٹ کے جج ویراپل تانگسوان نے جمعرات کو کہا ہے کہ نو رکنی عدالتی پینل نے اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کا جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ینگ لک کے خلاف مقدمے کی کارروائی کا آغاز 19 مئی سے متوقع ہے اور اگر اس معاملے میں وہ مجرم قرار پاتی ہیں تو انھیں دس برس قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔دو ماہ قبل چاولوں کی اسی متنازع سبسڈی سکیم میں بطور وزیرِ اعظم ینگ لک کے کردار پر تھائی پارلیمان بھی ان کے مواخذے کی منظوری دے چکی ہے جس کے بعد وہ ملکی سیاست میں پانچ برس تک حصہ نہیں لے سکتیں۔ینگ لک شیناوترا کو مئی 2014 میں ملک میں فوجی بغاوت سے قبل عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ چھوڑنی پڑی تھی اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان پر عائد کیے جانے والے الزامات ان کا سیاسی کریئر ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔ینگ لک کی جماعت تھائی لینڈ کی مقبول ترین سیاسی جماعت رہی ہے اور سنہ 2001 سے اب تک ہونے والی انتخابات جیتتی رہی ہے۔اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دستاویزات کے 20 ڈبے جمع کروائے گئے تھے جن میں ینگ لک پر چاولوں کی سبسڈی پروگرام کی نگرانی میں اپنی ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کا الزام لگایا گیا تھا۔تھائی لینڈ کے قومی انسدادِ بدعنوانی کمیشن نے بھی حال ہی میں ملک کی وزارتِ خزانہ سے کہا ہے کہ وہ ینگ لک پر مقدمہ کر کے ان سے کم از کم چھ سو ارب بھات بطور ہرجانہ وصول کرے۔ینگ لک کے خلاف چاولوں پر سبسڈی کے معاملے میں الزام ہے کہ ان کی حکومت نے تھائی کسانوں سے جس قیمت پر چاول خریدے وہ عالمی منڈی کی قیمت سے کہیں زیادہ تھی۔اس خریداری کی وجہ سے ملک میں حکومتی گوداموں میں چاول کے ڈھیر لگ گئے اور انھیں برآمد کرنے میں شدید مشکلات پیش آئیں۔وزارتِ عظمیٰ سے علیحدگی کے باوجود ینگ لک اور ان کے بھائی اور سابق وزیرِ اعظم تھاکسن شیناوترا ملک کی غریب عوام میں بہت مقبول ہیں لیکن ملک کا امیر اور متوسط طبقہ انھیں پسند نہیں کرتا اور ان پر بدعنوانی اور طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات لگاتا ہے۔