جدہ(نیوز ڈیسک )سعودی عرب کے سراغرساں ادارے کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ممکنہ سمجھوتے کے بعد خطے میں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ شروع ہوجائے گی اور سعودی عرب سمیت دوسرے ممالک بھی جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے خواہاں ہوں گے۔ اس وقت ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات جاری ہیں اور ان کا مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔اسرائیل اور بعض مغربی ممالک اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ایران اپنی افزودہ یورینیم سے جوہری بم کے لیے درکار ایندھن تیار کرسکتا ہے۔ انھوں نے یہ بات سوموار کو بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ”میں ہمیشہ سے یہ کہتا چلا آ رہا ہوں کہ ان مذاکرات کا جو بھی نتیجہ برآمد ہو،ہم بھی وہی چاہیں گے
مزید پڑھئے:پیدل چلتے ہوئے سمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ
جو ایران چاہتا ہے۔ایران یورینیم کو افزودہ کرنے کی خواہ کتنی ہی صلاحیت حاصل کرتا ہے تو پھر سعودی عرب بھی ایسی صلاحیت کے حصول کی بات کرے گا”۔ دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری بم تیار نہیں کرنا چاہتا ہے اور وہ مغرب کی معاشی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسی ماہ کے اوائل میں الریاض کا دورہ کیا تھا اور سعودی قیادت کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی تھی کہ امریکا ایسی ڈیل کو تسلیم نہیں کرے گا جس سے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت مل جائے۔ شہزادہ ترکی کا کہنا تھا کہ ”ایران پہلے ہی عرب دنیا میں گڑبڑ کرنے والے کھلاڑی کا کردار ادا کررہا ہے۔خواہ یہ یمن،شام،عراق ،فلسطین ہے یا بحرین،ان سب ممالک میں وہ گڑبڑ کررہا ہے۔اس لیے صرف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کی تیاری کے خوف کے خاتمے سے ہماری ایران کے ساتھ کشیدگی کا خاتمہ نہیں ہوگا”۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ایک دوسرے کو خطے میں اپنا حریف سمجھتے ہیں۔سعودی عرب اس خدشے کا اظہار کرتا رہتا ہے
مزید پڑھئے:طلاق کے برسوں بعد بھی ہرجانہ دینا پڑا
کہ ایران کی مغربی ممالک کے ساتھ جوہری ڈیل کے بعد اس کے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے دروازے کھلے رہیں گے اور اس پر عاید پابندیوں کے خاتمے سے سیاسی دباؤ بھی ہٹ جائے گا۔اس طرح وہ خطے میں سعودی عرب کے مخالف اپنے گماشتہ گروپوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ شہزادہ ترکی بن فیصل نے عراق میں دولت اسلامی (داعش) کے جنگجوؤں کے خلاف جنگ میں ایران کے کردار کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔انھوں نے ایران کی جانب سے داعش مخالف شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت کے حوالے سے کہا کہ ”اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران عراق پر اپنا قبضہ بڑھا رہا ہے اور یہ ناقابل قبول ہے”۔