واشنگٹن(نیوز ڈیسک)امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ انہیں یہ خبروں کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ان کی سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے سرکاری امور کے لیے اپنی ذاتی ای میل کا استعمال کیا۔امریکی نیوز چینل سی بی ایس نیوز کے ساتھ ہوئے ان کے انٹرویو کے ہفتے کو جاری ہونے والے ایک اقتباس میں انہوں نے کہا کہ \”مجھے خوشی ہے کہ ہلری نے ہدایت کی ہے کہ سرکاری امور کے متعلق ان ای میلز کو سامنے لایا جائے\”۔بڑے پیمانے پر اس توقع کو اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہلری 2016ء4 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی تاہم انہوں نے باضابطہ طور پر ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا ہے۔ای میل کی بابت اس وقت ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا جب یہ معلوم ہوا کہ ہلری نے بطور وزیر خارجہ سرکاری امور کے لیے اپنی نجی ای میل کو استعمال کیا۔وزارت خارجہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نجی ای میل اکاؤنٹ کا استعمال ممنوع نہیں ہے اور کلنٹن نے کبھی بھی اس اکاؤنٹ کے ذریعے خفیہ معلومات کا تبادلہ نہیں کیا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ نجی اکاؤنٹ ممکنہ طور پر اس لیے بنایا گیا ہو گا تاکہ وہ اس طریقے سے پیغامات کے تبادلے کو مخفی رکھ سکیں۔
ہلری کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ عوام ان کی ای میلز کو دیکھیں اس لیے انہوں نے وزارت خارجہ سے اسے سامنے لانے کے لیے کہا ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہزاروں ای میلز کا جائزہ لینے کا کام شروع ہو گیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کام میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔
امریکہ کے ایک موقر اخبار نیویارک ٹائمز کی طرف سے ان کی نجی ای میل کے استعمال کو سامنے لانے کے بعد ہلری نے بدھ کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں اس معاملے پر اپنی خاموشی کو توڑا، جس سے اس بات کو تقویت ملی کہ انہوں نے ممکنہ طور پر وفاقی ریکارڈ سے متعلق ان قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت سرکاری حکومتی دستاویزات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔اس کہانی نے اس وقت ایک مزید موڑ لیا جب امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ہلری نے نیویارک میں اپنے خاندانی گھر میں موجود ذاتی ای میل سرور کو استعمال کیا۔ان انکشافات کے بعد بن غازی میں 2012ء4 میں امریکی سفارت خانے پر حملے سے متعلق ایوان نمائندگان کی ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین نے اس واقعہ کے متعلق کلنٹن کے ای میلز کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ہلری کلنٹن کی ای میل سے متعلق خبروں سے معلوم ہوا: اوباما
8
مارچ 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں