لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) سائنسی تحقیق کے مطابق زمین سے ڈائنو سار کے خاتمے کا سبب ایک شہاب ثاقب بنا تھا جو زمین سے ٹکرایا تو اس کی زد میں آکر ڈائنو سار کی نسل ہی ختم ہو گئی۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ جو شہاب ثاقب ڈائنوسارس کے خاتمے کا باعث بنا ۔وہ 10سے 15 کلومیٹر چوڑاتھا اور خلیج میکسیکو میں چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل ٹکرایا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر 140 میٹر چوڑا شہاب ثاقب ہی اگر زمین سے ٹکرائے تو اس سے اتنی تباہی پھیلے گی جتنی کسی بڑے زلزلے سے پھیلتی ہے یا جو تباہی امریکا میں آنے والے سمندر طوفان قطرینہ سے پھیلی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر کروڑوں سال قبل ٹکرانے والا شہاب ثاقب اگر کسی اور مقام پر ٹکراتا تو اس کا اتنا زیادہ اثر نہ ہوتا۔دوسرے الفاظ میں صرف حجم تباہی کا پیمانہ نہیں۔ اگر یہ سمندر کے گہرے پانیوں میں چلا جاتا تو دنیا پراس کے اثرات مختلف ہوتے۔ اس موضوع پر حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ’’دی ڈے ڈائنوسارس ڈائیڈ‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بھی نشر کی ہے۔ اس کے مطابق اگر شہاب ثاقب کچھ ہی دیرسے ٹکراتا تو آج کی دنیا بہت مختلف ہوتی اور اس زمانے کے بہت سے جانور بشمول ڈائنوسارس زندہ ہوتے۔ لہٰذا شہاب ثاقب کا محض حجم اہم نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ کس مقام سے ٹکراتا ہے۔ سائنس کی بیش بہا ترقی کے باوجود انسان اس غیر متوقع خطرے سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوا۔ وہ ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تباہ کن جنگی ہتھیار بنا چکا ہے ۔ اس کی توجہ ایک دوسرے کی تباہی پر زیادہ اور بیرونی خطرے پر کم ہے۔ وہ کسی خطرناک شہاب ثاقب کو راستے ہی میں تباہ کرنے کی قابل ذکراستطاعت نہیں رکھتا۔ پس بیرونی اجسام کے زمین سے ٹکراؤ کو روکنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔