ہفتہ‬‮ ، 16 اگست‬‮ 2025 

بھارتی شہریوں نے ہاتھوں میں انسانی کھوپڑیاں اٹھا کر کیا کام شروع کردیا ؟

datetime 24  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(این این آئی)بھارت کے دارالحکومت دہلی میں گذشتہ نو روز سے کسان اپنے دیرینہ مطالبات منوانے کے لیے ان کاشتکاروں کی کھوپڑیوں کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں جو خود کشی کر چکے ہیں۔ان کسانوں کا تعلق جنوبی ریاست تمل ناڈو سے ہے جو دلی کے جنتر منتر پر خاموش دھرنے پر بیٹھے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان کسانوں کا کہناتھا کہ ریاست میں شدید خشک سالی کے سبب کاشتکار پریشان ہیں لیکن سرکاری بینک قرضہ واپس کرنے کے لیے انھیں ہراساں کر رہے ہیں

 اگر یہی حال رہا تو بہت سے دیگر کسان بھی خود کشی کرنے پر مجبور ہوں گے۔تمل ناڈو کے کسان رہنما پی ایّا کنون نے کہا کہ اس برس تمل ناڈو کو سخت ترین کے قسم کے قحط کا سامنا ہے اور اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی تو بڑ? تعداد میں کاشتکاروں کے خود کشی کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ان کا کہنا تھاکہ قومی بینک کسانوں سے قرض وصول کرنے کے لیے طرح طرح کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بینک مینیجر انھیں گرفتار کروانے، ان کے کھیت بیچ دینے اور پولیس لانے کی بات کرتے ہیں۔ ان ہی حرکتوں کی وجہ سے گذشتہ ایک سال میں تقریباً 400 سو کسانوں نے خودکشی کر لی۔ یہ مردہ کھوپڑیاں انھیں کاشتکاروں کی ہیں جو گذشتہ برس بھی دلی اپنے مطالبات لے کر آئے تھے۔ حکومت نے مدد کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن کیا کچھ بھی نہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پریشان ہو کر کسانوں نے اپنی جان دے دی۔ایّا کنون کے مطابق کسان چاہتے ہیں کہ بینک ان کے قرضے معاف کریں، ان کی فصلوں کا بہتر معاوضہ دیا جائے اور آب پاشی کے لیے دریائے کاویری میں پانی مہیا کیا جائے۔اس احتجاج میں شامل ایک نوجوان خاتون ملکا کا کہنا تھا کہ ان کے نانا اور نانی کسانی کرتے تھے اور قرض نہ ادا کرپانے کی وجہ سے انھوں نے بھی خودکشی کر لی تھی۔انھوں نے بتایاکہ یہ جو مردہ انسانی کھوپڑیاں دیکھ رہے ہیں یہ لوگ بھی اپنے مطالیے لے کر چند برسوں سے دلی آیا کرتے تھے

لیکن حکومت نے ان کی ایک نہیں سنی اور پھر سراسیمگی کی حالت میں انھوں نے خود کشی کرلی۔ آج یہ ہمارے ساتھ مردہ حالت میں ہیں اور یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو جو مظاہرین اس وقت یہاں ہیں ان کا حال بھی یہی ہونے والا ہے۔’مظاہرے میں شامل ایک دوسرے کسان جی رمیش نے سرکاری بینک سے ایک لاکھ روپے کا قرض لیا تھا اور اب انھیں تقریبا چار لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ان کا کہنا
تھاکہ گذشتہ چند برس سے آبپاشی کے لیے پانی میسر نہیں ہے اور کوئی بھی فصل اگانا بہت مشکل ہے۔ اس صورت حال میں بینک کا قرض کہاں سے لاکر ادا کریں۔انھوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو وہ جنتر منتر پر ہی جمعرات کو خودکشی کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ادھر مرکزی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ان کے مطالبات پر غور کر رہی ہے اور اس معاملے پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے انھیں دو روز کی مہلت چاہیے۔یں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیلا کے ساتھ دو گھنٹے


شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…